کامیابی کی کجنیاں

In ادب
June 25, 2022
کامیابی کی کجنیاں

کامیابی کی کنجیاں

ہمارے ہاں ہر شخص کامیاب زندگی گزارنا چاہتا ہے اور کامیابی کا خواہاں ہے. ہم میں سے ہر دوسرے شخص کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ اس کے پاس مال و دولت کی کثرت ہو اور وہ عیش و عشرت سے بھرپور زندگی گزارے. مزے کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی کامیاب تو ہونا چاہتا ہے لیکن ہم کامیابی کے اصولوں کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ہم کامیابی حاصل کرنے کے لیے بھی شارٹکٹس ڈھونڈتے ہیں. ہم چاہتے ہیں سب کچھ گھر بیٹھے ہی مل جائے اور ہم رات و رات اس دنیا کے امیر ترین شخص بن جائیں. بالکل اسی طرح جس طرح ہم میں سے ہر شخص جنت کا متلاشی ہے اور وہ ہر روز اللہ تعالٰی سے جنت الفردوس کی تمنا کرتا ہے لیکن وہ اس جنت کے حصول کے لیے مسجد میں جانے کو تیار نہیں ہے.

ہم جب کامیاب لوگوں اور کامیاب معاشروں کا ذکر کرتے ہیں تو یورپ اور امریکہ کے معاشروں کی مثالیں دیتے ہیں.ہم ان معاشروں کو آئیڈیل قرار دیتے ہیں. ہم ان کے نظام حکومت کی مثالیں دیتے ہیں. آج کے اس کالم میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ امریکہ اور یورپ کے معاشرے کامیاب کیسے بنے؟ اگر ہم امریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ معاشروں کے طرز زندگی کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو ان کی کامیابی کے پیچھے کچھ اصول و ضوابط اور کامیابی کی کنجیاں نظر آئیں گی, ان معاشروں کا ہر شخص ایک چھوٹے ورکر سے لے کر امریکی صدر تک ان اصول و ضوابط کی پیروی کرتا ہے. ان میں سے چند اصول و ضوابط درج ذیل ہیں.

معزز قارئین کرام ابھی تک امریکہ پر گیارہ صدر حکومت کر چکے ہیں, ان میں سے بیشتر نے دو دو دفعہ امریکہ پہ حکومت کی جن میں باراک اوبامہ اور جارج بش سرفہرست ہیں. آپ یہ جان کر ششدر رہ جائیں گے کہ ان گیارہ میں سے کوئی بھی سگریٹ اور شراب نہیں پیتا تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ بھی انہی میں شامل ہیں, نومنتخب صدر جوبائیڈن بھی اسی فہرست میں شامل ہیں. ان میں سے دس امریکی صدر مصنف تھے اور انہوں نے متعدد کتابیں لکھ رکھی تھی. یہ کتابیں پڑھتے تھے اور ان کے گھروں میں بڑی بڑی لائبریریاں بنی ہوئی تھی. یہ بات صرف امریکی صدور تک ہی محدود نہیں بلکہ حیران کن بات یہ ہے کہ امریکہ کے بائیس سی.ای.اوزاور چئیرمین بھی سگریٹ اور شراب نہیں پیتے, یہ لوگ اپنی گاڑیاں بھی خود ڈرائیو کرتے ہیں, گھر کا سودا سلف بھی خود لاتے ہیں اور یہ لائن میں لگ کر کافی اور برگر بھی خود خریدتے ہیں. آپ نے دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس کا نام تو سنا ہو گا, بل گیٹس ایک سال میں اسّی کتابیں پڑھتے ہیں یہ اپنے گھر کے سارے کام بھی خود کرتے ہیں اور عام آدمی کی طرح لائن میں لگ کر اشیاء خورد و نوش خریدتے ہیں.

امریکہ میں ایماندار, دیانتدار, مہذب, بااخلاق اور باادب شخص کو کامیاب سمجھا جاتا ہے. وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کامیاب, دولت مند, دانشور اور مشہور ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ میں عجز و انکساری ہو, آپ اپنا کام خود کرتے ہوں, آپ جسمانی طور پر فٹ ہوں اور آپ باکردار ہوں. اگر آپ کے پاس پوری دنیا کی دولت موجود ہے لیکن آپ میں یہ عادات نہیں ہیں تو آپ کامیاب تصور نہیں کیے جائیں گے. لیکن ہمارے ہاں کامیابی کا معیار بہت مختلف ہے. ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر دولت مند اور خود کو کامیاب کہنے والا شخص بدکردار بھی ہو گا اور وہ ایماندار, دیانتدار, مہذب, بااخلاق اور باادب تو بالکل بھی نہیں ہو گا.

اگر ہم زندگی میں واقعی کامیاب ہونا چاہتے ہیں اور ہم اپنے ملک میں حقیقی تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے خود کو بدلنا ہو گا. کیونکہ کامیاب لوگوں سے ہی کامیاب معاشرے اور کامیاب معاشروں سے ہی کامیاب ملک وجود میں آتے ہیں. لہٰذا کامیاب معاشرہ بنانے کے لیے افراد کی سوچ میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے, اور سوچ کی تبدیلی کے لیے ان اصول و ضوابط پہ عمل پیرا ہونا بےحد ضروری ہے.جب تک ہمارے ملک کے عام آدمی کی سوچ میں تبدیلی نہیں آئے گی تب تک ملکی نظام میں تبدیلی ممکن نہیں ہے لہٰذا ہمیں کامیاب ہونے کے لیے ان کامیابی کی کنجیوں تک رسائی حاصل کرنا ہو گی.