ستم عشق

In افسانے
August 04, 2022
ستم عشق

کیا انسان جب اس دنیا میں آیا تب بھی اتنا ہی مغرور تھا تب بھی وہ اکڑ کر چلنا چاہتا تھا اور اس قدر تکبر والے لفظوں کا استعمال کرنا چاہتا ہے اور آمریت کو ترجیح دینا آگیا تھا کیا صرف تب اس کے پاس طاقت کی کمی ہوتی ہے کیا وہ پہلے سانس کے ساتھ سیکھ جاتا ہے

اس کے یہ الفاظ میرے کلیجے کو چھلنی چھلنی کر رہے تھے اتنے معصوم سے چہرے کے پیچھے اس قدر درد اور تکلیف تھی میں اپنا درد جیسے بھول ہی گئی مجھے اپنی نواب سکندر سے ہونے والی بے عزتی جیسے یاد ہی نہ رہی ہو .میں ایک اور غوروفکر میں لگ گئی میری بیٹی پہلے تو ایسی نہیں تھی جب اس کا باپ زندہ تھا ااس کے چہرے سے ہنسی نہیں جاتی تھی مجھے معلوم ہی نہیں ہوا کے کب میری ہانیہ بچپن سے سیدھا بڑھاپے کی طرف آگئی میرا دل چارہا تھا کے میں اس قدر ذوروقطار سے روئو مگر میں ایسا بھی نہیں کر سکتی تھی کیوں کہ ہانیہ اس سے اور زیادہ پریشان ہوتی میں اپنی سرخ آنکھوں کو چھاپنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی

وہ جھٹ سے بولی امی جان آپ کل سے کام پر نہیں جائیں گی ان امیروں کو کیا لگتا ہے ہم ان کے ٹکڑوں پر پل رہے ہے اسے کیا معلوم نہیں اسے بھی وہی دہ رہا ہے جس نے مجھے تو کیا پتھر میں موجود کیڑے کو رزق دینے کا وعدہ کیا ہے میں اب نہیں جائو گی سکول میں کسی کے ہاں کام کر لوں گی بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف نواب سکندر نے گھر کے ماحول کو اپنے شور سے ایسے کیا ہوا تھا جیسے انڈیا پاکستان کا ورلڈکپ میں فائنل چل رہا ہو اور آخری گیند پر پانچ رنز کی ضرورت ہو شاہد آفریدی چھا لگا دے مگر شور کی آواز اسی قدر تھی مگر ادھر ادھر کے حلات میں فرق تھا ادھر خوشی کا شور تھا ادھر بےعزتی کا جو گھر کی عام سی نوکرانی نے انھیں یہ بول کر کی ہے کہ صاحب ابھی اندر نہ جائیں ابھی پوچا لگایا ہے فرش گیلا ہے آپ گر جائیں گے