شہید کون؟

In افسانے
September 16, 2022
شہید کون؟

شاہینوں کے شہر سرگودھا میں فیصل آباد روڈ پر سرگودھا میڈیکل کالج کے بالکل سامنے چند باسیوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاؤں اوعوانا آباد ہے۔اس گاؤں کی خاص وجہ اس میں موجود ہر گھرانے کا ماشااللہ ایک بچہ حافظ قرآن ہے۔گاوں کے رواج کے مطابق اللہ یار کا بھی ایک بیٹا شہر کے کسی مدرسے میں قرآن حفظ کر رہا تھا اور دوسرا والدین کی امنگوں کو پورا کرنے کیلیے آرمی میں زیر تربیت تھا۔دونوں بچے اپنے والدین کی حافظ قرآن اور فوجی آفیسر کی خواہشات پوری کرنے کیلیے گھر سے دور ہاسٹل میں رہ رہے تھے۔

وقت بڑی تیزی سے گزر رہا تھا اور دونوں بچے اپنے منازل کی طرف رواں تھے ۔ جہاں دونوں کی جسمانی نشوونما ہو رہی تھی وہیں ان کی دماغی پختگی کا عمل بھی جاری تھا۔کیڈٹ کالج میں اعلی فوجی افیسرزکی زیر تربیت بچے کے اندر ملک سے محبت اور شہادت کا جذبہ بھرا جا رہا تھا جبکہ دوسری جانب مدرسے میں عالم دین کے زیر نگرانی بچے کو اس فانی دنیااور جنت کی ابدی زندگی کے بارےمیں بتا نے کے ساتھ ساتھ ملک کی خاطر جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا جا رہا تھا۔شروع شروع پر تو جب دونوں بچے چھٹی پر گھر آتے تو گھر میں خوب رونق ہوتی ،بچے اپنی ہاسٹل لائف والدین سے شئیر کرتے ،دونوں بچے آپس میں اپنی اپنی فیلڈ پر تبصرے کرتے،جہاد اور شہادت پر ہلکی پھلکی بحث ہوتی مگر وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہ بحث بڑھتی چلے گئی۔مدرسے میں تربیت پانے والے بچے کا موقف ہوتا کہ ہماری آرمی اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو دہشت گرد کہہ کر شہید کر رہی ہے جو کہ غلط ہے جبکہ فوج میں زیر تربیت بچے کا موقف ہوتا کہ آرمی مسلمانوں کو نہیں بلکہ ان معصوم مسلمانوں کو ورغلانے والے ملک دشمن عناصر کو مار رہی ہےاور اس دوران ہمارے نوجوان شہید بھی ہو رہے۔دونوں بچے اپنے اپنے موقف پر قائم تھے اس لیے ان میں دوری پر گئی وہ اب کئی کئی مہینوں گھر بھی نہ اتے۔والدین کی خواہشات پوری ہو چکیں تھیں ایک بچہ حافظ قرآن بن چکا تھا اور اب عالم کا کورس کر رہا تھا جبکہ دوسرا ایک بڑا آرمی آفیسر بن چکا تھا۔

دونوں بچے اب اپنی زندگی کے اگلے مشن کی طرف رواں دواں تھے ایک کا خواب جہاد کر کے شہید ہونا اور دوسرے کا خواب ملک کی خاطر جنگ لڑتے شہید ہونا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ایک صبح اللہ یاد نے ٹی وی آن کیا اور کیا دیکھتا ہے کہ سبز ہلالی پرچم کے ساتھ اس کے بڑے بیٹے کیپٹن عرفان کی ڈیڈ باڈی دیکھائی جا رہی تھی جو آج صبح ہی ٹرینیگ کے دوران ایک خود کش حملہ کے دوران شہید ہوچکا تھا اس کے ساتھ ساتھ خود کش حملہ اور کابارود سے چھلنی ہوا جسم بھی دیکھایا جا رہا تھا ۔اللہ یار کی چیخ نکل گئی کیوں کہ یہ اس کا چھوٹا بیٹا حافظ عمران تھا۔دونوں بیٹے ٹرینینگ کے مطابق اپنی زندگی کے مشن پورے کر چکے تھے مطلب شہادت حاصل کر چکے تھے مگر حقیقت میں شہید کون ہے ۔۔۔۔۔اللہ پاک بہتر جانتے ہیں۔(انجنئیر ثاقب اعوان)

فوج اور مسلمان طالبان کے درمیان لڑی جانے والی جنگ کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک فرضی کہانی لکھی ہے حقیقت میں ایساکوئی واقع رو نما نہیں ہوا مگر فوج اور طالبان کے درمیان جنگ کا نظریہ اس کہانی کی شکل میں دیکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔