266 views 0 secs 0 comments

پاکستانی اسکولوں میں جاری ایک نہایت خطرناک عمل

In تعلیم
October 07, 2022
پاکستانی اسکولوں میں جاری ایک نہایت خطرناک عمل

“حافظہ نورافشاں”

 

میں پاکستانی اسکولوں میں ایک نہایت خطرناک عمل کو بہت عام ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہوں ۔ تقریباً تمام اسکولوں میں بچے پین میں سیاہی بھرنے کے لیے سرنج کا استعمال کرتے ہیں ۔بچے ہر قسم کے پین میں سیاہی بھرنے کا لیے پہلے سرنج میں سیاہی بھرتے ہیں پھر اس کو پین کی سیاہی والی ٹینکی میں باقاعدہ طور پر انجیکٹ کرتے ہیں حالانکہ ہر کمپنی کا پین اس طرح بنایا جاتا ہے کہ اس میں بغیر سرنج کے سیاہی بھری جا سکتی ہے۔

جب بھی میں کسی اسکول میں یہ دیکھتی ہوں تو حیران رہ جاتی ہوں کہ اسکول کی انتظامیہ بچوں کو اسکول میں سرنج کے استعمال سے کیوں نہیں روکتے؟ اس سے بھی بڑی حیرانگی کی بات یہ ہے کہ والدین بھی اپنے بچوں کو منع نہیں کرتے ۔ میں کچھ اسکولوں میں اس کے نقصانات پر تقاریر کر کے اس پر مکمل پابندی لگوا چکی ہوں۔ میں ہر اسکول میں نہیں جا سکتی اسی لیے میں نے اس پر لکھنا ضروری سمجھا۔اب قاری کے ذہن میں یہ سوال ہو گا کہ

یہ کیوں خطرناک ہے ؟

محترم قارئین! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میڈیکل اسٹور سے خریدی جانے والی تقریباً ہر شے میں پر لکھا ہوتا ہے کہ
“بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں”

اس جملے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ بچوں کے استعمال یا کھیلنے كی چیز نہیں ہے ۔جب میں بچوں سے سرنج کے بارے میں استفار کرتی ہوں کہ یہ ان کے پاس کہاں سے آئی؟ جواب ملتا ہے کہ میڈیکل اسٹور سے خریدتے ہیں ۔ میڈیکل اسٹور والوں سے کوئی کیوں نہیں پوچھتا کہ نابالغ چھوٹے بچوں کو سرنج کیوں بیچ رہے ہوں ؟

کیا وہ نہیں جانتے کہ یہ صرف ڈاکٹر کے استعمال كی چیز ہے؟میں نے اسکولوں میں دیکھا ہے کہ بچے سرنج میں سیاہی ڈال کر ایک دوسرے کی وردی کو گندہ کرتے ہیں یا صرف پانی ڈال کر ایک دوسرے پر ڈالتے ہیں ۔کھیل ہی کھیل میں ایک دوسرے کو کہہ رہے ہوتے ہیں کہ میں تمہیں ٹیکا لگا دونگا۔بچے نہیں جانتے کہ سیاہی سے بھری سرنج اگر کسی کو لگا دی جائے تو وہ شخص شدید بیمار ہو سکتا ہے یہاں تک کہ اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اگر سیاہی کسی کی آنکھ میں چلی جائے تو شدید انفیکشن کا باعث ہو سکتی ہے کیونکہ پین والی سیاہی بنانے والے کارخانے کا دھیان صرف اس طرف ہوتا ہے کی سیاہی کا رنگ خوبصورت اور چمکدار ہو نا کہ صاف ستھرے مواد کی طرف اور ٹیٹو( کچھ لوگ اپنے جسم پر ہمیشہ کے لیے کسی کا نام لکھواتے ہیں یا کوئی نشان بنواتے ہیں اس کو اردو میں مہر اور انگلش ميں ٹیٹو کہتے ہیں) کے لیے بنائی جانے والی سیاہی انتہائی صاف ستھرے طریقے اور مواد سے بنائی جاتی ہے ۔اس کے باوجود ہر کسی کے جسم کو ٹیٹو راس نہیں آتا اور جسم پر سوزش اور خارش وغیرہ جیسے اثرات ظاہر ہوتے ہیں ۔

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ہر ڈاکٹر مریض کو ٹیکا لگانے سے پہلے سرنج کو پیچھے سے دبا کر تھوڑی سی دوائی کی مقدار کیوں باہر نکال پھینکتا ہے؟ دراصل ڈاکٹر سرنج کے استعمال سے پہلے نہ تو سرنج میں دوائی کی روانی کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور نہ ہی دوائی کی مقدار کم کرتا ہے بلکہ وہ سرنج میں موجود ہوا کو باہر نکالتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سرنج میں موجود ہوا کا ایک نہایت چھوٹا سا بلبلہ فوراً انسانی جان لے سکتا ہے مگر بچے یہ نہیں جانتے کہ ایک خالی نظر آنے والی سرنج میں ہوا موجود ہوتی ہے اور اگر وہ کسی شخص کو لگا دی جائے تو ہوا جسم میں سفر کرنا شروع کر دیتی ہے اور فوراً دل کے دورے کا باعث بنتی ہے۔

بچوں کو اکثر جلدی ہوتی ہے جس کے باعث وہ سرنج کا ڈھکن لگائے بغیر ہی اس کو بستے میں رکھ لیتے ہیں اور اس پہ ستم یہ کہ آج کل اسکول کی جماعت میں بچوں کے لیے میز نہیں ہوتی صرف ایک کرسی ہوتی ہے(جس کو عرف عام میں اگزیمنیشن چیئر بھی کہا جاتا ہے) جس پر بچے نے بیٹھنا اور بستہ بھی رکھنا ہوتا ہے اور بستہ بچوں کا کس قدر بھرا ہوتا ہے خدا کی پناہ آٹھ کتابیں ،آٹھ امدادی کتابیں ،آٹھ کاپیاں ،ڈائری، دوپہر کے کھانے کا برتن اور پانی کی بوتل وغیرہ وغیرہ۔ بچے کے بیٹھنے کی جگہ تو بچتی ہی نہیں لہذا جو تھوڑی سی جگہ بچ جاتی ہے اس پر بچہ بیٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے بستے کو پیچھے دھکیلتا ہے اور اس دوران بچے کو سرنج کی سوئی چبھ سکتی ہے اور سرنج میں موجود سیاہی،ہوا یا پانی بچے کے جسم میں داخل ہو کر خطرناک نتائج کا باعث ہوسکتا ہے۔

ارشاد ربانی ہے کہ “جس نے کسی ایک جان کو بچایا گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔”

اسی آیت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ ہم اسکول میں سرنج کے استعمال کے خاف آواز اٹھائیں۔