205 views 0 secs 0 comments

تربیت اولاد

In اسلام
October 24, 2022
تربیت اولاد

مسز علی
گوجرانوالہ

،،تربیت اولاد ،،

(پہلا حصّہ)

ایک بچہ اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے لیےایک قافلے کے ساتھ بغدادجا رہا تھا۔سفر پہ روانہ ہوتے وقت ماں نے بچے کو سفر کے اخراجات کے لیے چالیس اشرفیاں (سونے کے سکّے) کرتے کی ته میں سی دیں اور کہا کہ بیٹا ،،ہمیشہ سچ بولنا خواہ تمہارا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو

اس کے بعد وہ بچہ سفر کے لیے نکلا راستے میں بچے کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا ۔اس سفر کے متعلق بچہ خود کہتا ہے کہ ،،جب قافلہ ہمدان سے آگے بڑھا تو اچانک ڈاکو ہم پر ٹوٹ پڑے اور قافلے کا سارا مال لوٹ لیا مگر مجھے کچھ نہ کہا تھوڑی دیر بعد میرے پاس ایک ڈاکو آیا اور مجھ سے پوچھا بتا تیرے پاس کیا ہے،میں نے سچ بتا دیا کہ ،،چالیس اشرفیاں ،، وہ مذاق سمجھ کر چلا گیا اس کی بعد ایک اور ڈاکو آیا اس نے بھی یہی سوال کیا میں نے اسے بھی سچ بتا دیا مگر وہ بھی مذاق سمجھ کر چلا گیا۔ان دونوں نے اپنے سردار سے جا کر سب بیان کر دیا۔سردار نے مجھے اپنے پاس بلایا اور پوچھا بتا تیرے پاس کیا ہے۔ میں نے کہا ،،چالیس اشرفیاں،،۔ اس نے کہا کہاں ہیں? میں نے کہا بغل کے نیچے کرتے میں سلی ہیں اس نے کرتے کو ادھیڑ کر دیکھا تو اشرفیاں نکل آئیں۔سردار نے حیران ہو کر پوچھا تم جانتے ہو ہم ڈاکو ہیں اور ہمیں جو ما ل ملتا ہے اسے ہم لوٹ لیتے ہیں پھر تم نے ہم سے اس راز کو چھپا کر کیوں نہ رکھا۔

میں نے جواب دیا میری ماں نے مجھے نصیحت کی تھی کہ ہمیشہ سچ بولو ں پھر میں ان چالیس اشرفیوں کے لیے جھوٹ کیسے بولتا۔میری اس بات کا سردار پہ گہرا اثر ہوا اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور کہا افسوس ! تم نے اپنی ماں کا عہد نہیں توڑا اور میں اتنی مدت سے اپنے اللّٰہ کا عہد توڑ رہا ہوں ،، یہ کہ کر اس نے اپنے گناہوں سے توبہ کر لی اور قافلے کا لوٹا ہوا مال واپس کر دیا۔ اس کے ساتھیوں نے یہ سب دیکھ کر کہا کہ لوٹ ما ر کرنے میں بھی تو ہمارا سردار تھا تو اب توبہ کرنے میں بھی تو ہمارا سردار ہے،، یہ بچے شیخ عبدالقادر جیلانی رح تھے اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر مائیں سچ کا درس دیں تو بچے شیخ عبدالقادر جیلانی بنتے ہیں ۔اس بچے کے لہجے اور کردار میں اس کی ماں کی تربیت تھی کہ ڈاکوؤں کا پورا گروہ اپنے گناہوں سے تائب ہو گیا ۔اس کو تربیت کہتے ہیں

ایک باپ نے اپنے بیٹے سے رات کا دیکھا ہوا خواب بیان کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رھے ھیں ۔اللّٰہ کی رضا کے لیے۔فرمانبردار بیٹے نے جرح تک نہ کی کہ خواب ،خیال ہوتا ہے۔ براہ راست تو اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا واضح الفاظ میں۔ اور باپ کو کہا ،ابا جان آپ نے جو خواب دیکھا ہے اسے پورا کریں اللّٰہ کی رضا کے لیے اگرچہ یہ حکمِ الٰہی تھا لیکن تھی تو ایک آزمائش ہی۔کوئی اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں سے بھی ذبح کر سکتا ہے۔فرمانبردار بیٹے نے کہا کہ اباجان آپ اپنے خواب کو اپنے پروردگار کی رضا کے لیے پورا کریں ۔بیٹے کے لہجے میں تربیت بول رہی تھی۔

یہ واقعہ حضرت ابراہیم (خلیل اللہ )، علیہ السلام اور اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ( ذبیح اللہ) علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا۔

یہ فیضان نظر یا مکتب کی کرامت تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی۔۔۔۔۔۔۔

بچے والدین کے لیے فطرت اور قدرت کا سب سے بڑا انعام ہیں۔یہ والدین کے لیے عظیم نعمت ہیں۔اولاد اگر علم کے زیور سے آراستہ اور تربیت کے جوہر سے مزیّن ہو تو والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کا سرور بن جاتی ہے اگر اللّٰہ نہ کرے یہ تربیت کے جوہر سے محروم ہو جائیں تو پھر جیتے جی ان کے لیے مستقل عذاب بن جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہر تہذیب اور مذھب میں بچوں کی نگھداشت ،تعلیم اور تربیت میں بڑا قومی احساس پایا جاتا ہے۔مگر اسلام بچوں کی تہذیب و تربیت کو فرضیت کے درجے میں شمار کرتا ہے۔حدیثِ پاک کا مفہوم ہے کہ

،،اپنی اولاد کا احترام کرو انہیں اچھی تربیت دو تاکہ اللہ تمہیں بخش دے،،

شکاگو کے مشہور ماہر تعلیم فرانس دے لینڈ یارکر بچوں کی تعلیم و تربیت پر لیکچر دے رہے تھے۔لیکچر سے فارغ ہوئے تو ایک خاتون نے ان سے پوچھا ،،مجھے اپنے بچے کی تعلیم و تربیت کا آغاز کب سے کرنا چاہیے،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کے یہاں کب تک بچہ ہونے والا ہے۔عورت حیران ہو کر بولی ،،جناب وہ تو پانچ سال کا ہو چکا ہے،، حد ہو گئی خاتون آپ یہاں کھڑی باتیں کر ری ہیں۔آپ پہلے ہی پانچ بہترین سال ضا ئع کر چکی ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ بچے کے پیدا ہوتے ہی اس کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنی چاہیے ۔

در حقیقت اللّٰہ تعالیٰ عورت کو بچہ عنایت فرما کر گویا ایک سادہ کاغذ یا صاف تختی اس کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے اور پھر فرماتا ہے کہ جو کچھ اس پر لکھنا چاہو لکھ ڈالو ۔اور جو کچھ ماں اس پر لکھ دیتی ہے وہ اتنا دیرپا ہوتا ہے کہ کوئی اس کو مٹا نہیں سکتا۔ماں کی گود بچے کی اولین درس گاہ اور تربیت گا ه ہوتی ہے۔نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ،، تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا،،حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے

،،کل مولود یولد علی فطرت السلام،،
یعنی ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔

سیدنا ابو درداء رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،

،،العلم فی الاصغر۔ کالنقش فی الحجر ،،

بچپن کی تعلیم ایسے ہوتی ہے جیسے پتھر پر نقش ۔ اسی بات کی ایک عربی شاعر نے کیا خوب ترجمانی کی ہے
،،میں نے جو تعلیم بڑی عمر میں حاصل کی وہ بھول جاتا ہوں اور جو چھوٹی عمر میں سیکھا وہ ابھی تک نہیں بھولا۔علم تو وہی ہے جو بچپن میں سکھایا جاتا ہے۔اس میں علم ایسے منقش ہو گا جیسے پتھر پر نشانات،،

بچے کی تربیت و سیرت اور کردار سازی کے معاملے میں جو محوری اہمیت والدین کو حاصل ہے وہ کسی دوسرے کو نہیں۔اور والدین کو اپنے بچے کے لیے رول ماڈل بننا چاہئے کیونکہ آپ کی اولاد وہ نہیں سیکھے گی جو آپ کہتے ہیں بلکہ وہ سیکھے گی جو آپ کرتے ہیں ۔ اس کی سادہ مثال یہ ہے کہ اگر ہم نماز کے لیے کھڑے ہوں تو ہمارا ایک سے دو سال کا بچہ بھی ہمارے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو جائے گا۔جس کو ابھی نماز کی اہمیت کا پتہ ہے ،نہ ہی فرضیت کا-

یہ سوچ کر ماں باپ کی خدمت میں لگا ہوں ۔۔۔۔۔
اس پیڑ کا سایہ میرے بچوں کو ملے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمیں اپنی زندگی کے گلشن اور چمن کے پھولوں اور کلیوں یعنی اپنے بچوں کی بہتر پرورش کرنی ہے تا کہ وہ عالم شباب میں پہنچ کر ہمارے لیے اور خود اپنے لیے نیک نامی اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا باعث بن سکیں۔اور پھر زبان سے اپنے پروردگار سے یوں گویا ہوں۔

رب ارهمهما کما ربینی صغیرا ۔
،، اے ہمارے رب ! ہمارے والدین پراپنے رحم و کرم کی چادر تان دے کہ جس طرح انہوں نے ہمیں بچپن میں پالا اور ہماری پرورش کی ۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔)