دنیا

In افسانے
December 29, 2020

وہ ایک گندہ نالا تھا جس کے غلیظ اور بدبودار لیکن بہتے پانی پر سفیید رنگ کا جھاگ بہتا جا رہا تھا ۔ اگر غور سے نہ دیکھا جاۓ تو سفید رنگ کا جھاگ کسی کو بھی اس وہم میں مبتلا کر سکتا ہے کہ یہ غلاظت اتنی زیادہ نہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ دنیا اسی جھاگ کی مانند خوش نما دیکھائی دیتی ہے ۔ کم نگاہوں کو یہ سفید رنگ جھاگ اس غلاغت بھرے پانی کی جانب ماٸل کرنے لگتا ہے۔اور جو اس کی طرف مکمل طور پر مائل ہو جاتا ہے وہ اس غلاظت میں ڈوب جاتا ہے ۔

اسی غلیط پانی کے نالے کے کنارے اگے درخت اپنے اندر پرندوں کو بساۓ کھڑے ہیں ۔ نالے کی بدبو اور غلاغت کے برعکس یہ درخت اور ان پر بسنے والے پرندے اپنے اندر رنگوں کو سموۓ زندگی گزار رہے ہیں ۔چھوٹے بڑے پرندے جو نالے کے پانی پر چہچہاتے پھرتے ہیں انھی درختوں پر موجود ایک گھونسلے میں وہ سہ رنگ چڑیا بھی اپنا بسیرا رکھتی تھی، جس کی دم لال سر سفید اور پر سیاہ تھے ۔ یہ چڑیا ایک پتھر سے دوسرے پتھراور ایک درخت سے دوسرے درخت پر اڑتی پھرتی تھی ۔اس چڑیا کی خوش رنگی لوگوں کو اس کی جانب متوجہ کرتی -دن ڈھلنے کو تھا۔ ایک جانب کچی سڑک پر کام جاری تھی ۔ کام کرنے والے مزدوروں میں سے کچھ تو مسلسل کام کر رہے تھے صبح کی شفٹ میں کام کرنے والے مزدور ڈھیلےقدموں سے تھکے ہارے اپنے گھروں کو لوٹ کر جا رہے تھے ۔ اسی پکڈنڈی پر وہ عجیب و غریب عورت میلا کچیلا زرد رنگ کا جوڑا پہنے اپنے پہلو میں ایک ننھے بچے کو بٹھاۓ ہوۓ کسی گاہک یا پھر بھیک ملنے کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ اس کی غربت اور حالات اس کی جاۓ پیداٸش کی مرہون منت تھی۔

وہ پیدائشی جھگیوں میں رہنے والی تھی۔اسی نالہ کے دوسرے کنارے پر دوسرے شہروں میں جانے والی پبلک ٹرانسپورٹ کااڈا تھا جہاں مسافر اپنی اپنی منزل کے لیے جانے والی گاڑی کے منتظر تھے ۔ کوٸی تو اس نالہ کے پانی پر نظریں جماۓ اس گندگی پر موجود خوبصورتی کی تلاش میں وقت گزار رہا تھا تو کوٸی ادھر ادھر کی باتوں میں مشغول وقت گزار رہا تھا ۔اسی اڈا پر چھوٹے چھوٹے نمکو کے پیکٹ ایک چھابڑی اٹھاۓ اک عمر رسیدہ شخص نمکو ببل اور میٹھی گو لیاں بیچ کر اپنی بقایا زندگی کی گاڑی کو کھنچنے کی کوشش میں سر گرداں تھا۔ اس کے چہرے پر موجود جھریاں اس بات کی گواہ تھیں کہ اس نے اپنی جوانی محنت و مشقت میں گزاری تھی اور اب بچی کچی زندگی بھی محنت کرکے بسر کر رہا تھا ۔ وہ بار بار ہر ایک مسافر کے پاس اس امید سے جاتا کہ شاید کوٸی اس کسب حلال میں اس کا مددگار ہو جاۓ لیکن بہت کم لوگ اس کی جانب متوجہ ہوتے۔ کچھ اس سے مارے بندھے کچھ خریدتے جبکہ اکثر اسے نظر انداز کر دیتے۔

اسی اڈے کے ایک کنارے پر ایک پیر بابا کا مزار تھا۔ جن کی کرامات کا چرچا تھا بے اولاد جوڑے یہاں سے پانی بھر کر لے جاتے اور تبرک کے طور پر پیتے ۔ جن کی مراد پوری ہو جاتی وہ ںذارانے چڑھاتا جن کی مراد پوری نہ ہوتی وہ مسلسل اپنی حیثیت کے مطابق نذر و نیاز دیتا اور پانی 7 جمرات تک بھر بھر کے لے جاتا ۔ عجب بات یہ تھی کہ لوگوں کو یہ تو یقین تھا کہ یہ پانی پینے سے ان کی گود ہری ہو جائے لیکن اللہ کے حکم کا نہیں ۔کم و بیش تقریبا ہر ایک مسافر اس مزار پر نذر و نیاز چھڑاتے ۔ مجاور نذر ونیاز کی مد میں ان گنت بغیر محنت کے کمالیا کر تھا ۔ اسی جگہ پر وہ فقیر بھی تھا جوہر ایک کو آتے جاتے ایسے دیکھتا تھا جیسے اگر اس کو بیک نہ دی گئی تو اس کی بددعا نہ دینے والے کو تباہ و برباد کر دے گی ۔اس ایک کلومیڑ کے احاطے میں ان گنت مخلوقات، سمیت انسانوں کے اپنی اپنی زندگیاں گزار رہی ہے ۔ نظام اس قدر مربوط ہے کہ ہر قسم کی مخلوق اس نظام میں مکمل زندگی گزار رہی ہے ÷