شیطانی حملے اور صوفیاء کا ردعمل

In عوام کی آواز
December 29, 2020

شیطان انسان پرمختلف شکلوں میں حملہ کرتا ہے اور انہیں اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے ان میں سے ایک غصہ ہے ۔ شیطان نے حضرت یحیٰ سے عرض کی کہ میرا سب سے بڑا مکر غصہ ہے جس کے سبب میں لوگوں کو قید کرتا ہوں اور جنت کے راستے سے روکتا ہوں۔فضیل بن عیاض سے جب کہا جاتا کہ فلاں شخص آپ کی بد گوئی کرتا ہے تو فرماتے بخدا میں اس کے فعل سے ابلیس کو ناراض کروں گا۔ پھر فرماتے اے اللہ اگر وہ سچا ہے تو مجھے معاف کر دے اور اگر وہ جھوٹا ہے تو اس درگزر فرما۔

ایک آدمی نے حضرت ابو ہریرہ سے کہا تو ابو ہریرہ ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ پھر اس نے کہا تو بلی کا چور ہے؟ حضرت ابو ہریرہ نے جواب میں فرمایا اے اللہ مجھے اور میرے اس بھائی کو معاف فرما دے- پھر فرمایا ہمیں حضور کا یہی حکم ہے کہ جو تم پر ظلم کرے اس کے لئے استغفار کرو۔حضرت علی فرماتے ہیں ظالم کے ظلم پر صبر کرنے کا پہلا بدلہ یہ ہے کہ تمام لوگ مظلوم کے مددگار ہوتے ہیں۔ایک شخص نے حضرت ابوذر غفاری سے کہا تم ہی ہو جس کو امیر معاویہ نے جلاوطن کر دیا گیا تھا؟ اگر تم نیک ہوتے تو تمہیں جلاوطن نہ کرتے۔ اس پر آپ نے فرمایا: اے دوست میرے سامنے ایک سیاہ گھاٹی ہے اگر اس سے بچ گیا تو تیرا برا کہنا مجھے کچھ نقصان نہ دے گا اور اگر نہ بچا تو جو تو کہتا ہے میں اس سے بھی برا ہوں۔ایک عورت نے مالک بن دینار سے کہا اے ریا کارتو آپ نے فرمایا اے فلانی تو نے میرا وہ لقب معلوم کر لیا، جسے اہل بصرہ نہیں جانتے تھے۔حضرت عیسی فرماتے تھے جو کوئی ایک برا کلمہ برداشت کرتا ہے اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔

حضرت علی فرماتے ہیں جب تم کوئی برا کلمہ سنو تو اس سے اعراض کرو جواب نہ دو کیونکہ اس کے کہنے والے کے پاس اور بھی ایسے کلمات ہیں جو ہمیں جواب میں کہے گا۔حضرت مالک بن دینار فرماتے ہیں وہ شخص بردبار ہیں جو اپنا غصہ بلی یا کتے پر نکا لے۔ نیز فرمایا بے وقوف آدمی کو اس کی بات کا جواب نہ دینا یا اس کے کہنے پر کسی اور کا اظہار نہ کرنا سخت برا معلوم ہوتا ہے۔ حضرت امام حسین ان کو جب کوئی گالی دیتا تو فرماتے اے بھائی اگر تو اپنے قول میں سچا ہے تو اللہ تجھے تیری سچائی کا بدلہ دے گا اور اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالی تجھ سے سخت بدلہ لینے والا ہے۔ایک مرتبہ ایک آدمی نے حضرت امام حسین کے منہ پر طمانچہ مارا۔ آپ ناراض نہ ہوئے بلکہ پو چھا کہ یہ کسی نے مقدر کیا ہے؟ لوگوں نے کہا الله تعالى نے آپ نے فرمایا تو تم مجھے تقدیر الہی کا لوٹانے والے خیال کرتے ہو۔ابن مقنع فرماتے ہیں غصے کو پی جانا عذر کرنے کی ذلت سے بہتر ہے۔ ایک دفعہ کسی نے آپ سے حزن و غضب میں فرق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا حزن تجھ سے کسی بڑے آدمی کا تیری آرزو کے خلاف ہونے سے پیدا ہوتا ہے اور غضب کمزور آدمی کا تیری آرزو کے مخالفت کرنے سے۔

ایک شخص نے بکر بن عبدالله المزنی کو بہت سی گالیاں دیں، آپ خاموش رہے۔ کسی نے آپ سے کہا آپ اسے کیوں گالیاں نہیں دیتے۔ فرمایا میں اس کی کوئی برائی نہیں جانتا جس کی وجہ سے میں اسے برا کہہ سکوں اور بہتان لگانا میرے لئے جائز نہیں۔ایک آدمی نے ثور بن یزید سے کہا اے قدری اے رافضی آپ نے اس سے کہا اگر میں ایسا ہی ہوں جبیا تم نے کہا تو میں برا آدمی ہوں اور اگر ایسا آدمی نہیں ہوں تو مجھے میری طرف سے معافی ہے۔مکحول دمشقی فرماتے ہیں انسان کا حلم اس پر جاہلوں کے مسلط ہونے سےمعلوم ہوتا ہے۔۔۔۔۔ثواب کی نیت سے شعر ضرور کریں شکریہ۔۔لکھائی میں کوئی غلطی ہوئی ہو تو میں اللہ سے معافی مانگتا ہوں۔۔

رائٹر۔۔۔۔۔ اعجاذ احمد اور حمزہ شاہ۔۔