صراط مستقیم اور پل صراط

In عوام کی آواز
November 09, 2022
صراط مستقیم اور پل صراط

*صراط مستقیم اور پل صراط*
تحریر: مسز علی گوجرانوالہ

صراط مستقیم ایک ایسا راستہ جس پر چل کر پاکیزہ لوگ انعام یافتہ کہلائے۔ یقیناً سب سے بڑا خوش بخت انسان وہی ہے جس نے اپنے خالق کی رضا اور ناراضگی کا باعث بننے والے افعال کو پہچانا اور رب کے حکم کے مطابق زندگی بسر کی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حق کی پہچان کے لیے کوشاں ہونے کی توفیق دے۔انسان کی یہ فانی زندگی آزمائش ہے اس کڑے امتحان کا رزلٹ یا تو ہمیشہ ہمیشہ کی راحتوں اور خوشیوں کی جگہ جنت کی صورت میں یا ہمیشہ کی ذلت و رسوائی کی جگہ جہنم کی صورت میں نکلنے والا ہے۔ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے خدائی دین کو کتابی صورت میں محفوظ کر دیا گیا قیامت تک تمام انسانوں کیلئے محفوظ دین، دین اسلام ہے۔ اور اسی دین خداوندی کو قرآن پاک میں صراط مستقیم کہا گیا ہے۔ قرآن پاک میں سورۃ فاتحہ میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے سیدھے راستے پر چلنے کی دعا مانگیں اور یہ دعا ہماری نماز کا حصہ بھی ہے۔

،،اهدنا الصراط المستقیم،،
اے اللہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا، راستہ ان لوگوں کا جن پر تیرا انعام ہوا۔
مسند احمد میں صحیح سند کے ساتھ ایک حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر ایک سیدھی لکیر کھینچی پھر اور ٹیڑھی لکیریں کھینچیں۔ آپ نے سیدھی لکیر پر انگلی رکھ کر سورۃ الانعام کی آیت پڑھی جس کا مفہوم ہے
اور یہ ہے وہ سیدھا راستہ جو میرا راستہ ہے سیدھا،مستقیم ۔ سیدھا راستہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے، اے اللہ ہمیں بچانا اس راستے سے جن پر تیرا غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے۔ اسی راستے پر چلنا سیکھو جو راستہ اللہ سے ملوا دے۔ زندگی سفر ہے منزل نہیں منزل پہ جانے کے لئے راستہ درکار ہے سیدھا راستہ، صراط مستقیم ۔دنیا میں سنبھل سنبھل کر چل لیا تو پل صراط پر سنبھل کر نہیں چلنا پڑے گا۔

صراط مستقیم پل صراط نہیں ہے۔ پل صراط ایک چوڑا راستہ ہے جس پر ہم اپنے مزاج کے مطابق چل سکتے ہیں لیکن اس کی حد سے باہر نہیں نکل سکتے۔ وہ جو حد ہے مقرر ہے صراط مستقیم کی لیکن پل صراط کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ بخار ی اور مسلم میں پل صراط کے حوالے سے حدیث ہے جس کا مفہوم ہے

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جہنم کے دونوں سروں پر ایک پل رکھیں گے جو کہ پل صراط ہے۔

جہنم کو پار کرنے کے لیے ایک بہت بڑا پل۔ جس کی پتہ نہیں کتنی مسافت ہے۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اس پل کی لمبائی اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ پل صراط کا ذکر قرآن مجید میں بھی اشارتاً موجود ہے سورۃ مریم کی آیت نمبر ۷۱ کا مفہوم ہے اور کوئی بھی تم میں سے ایسا نہیں ہے کہ اسے اس پر سے نہ گزرنا پڑے یہ تمہارے رب کی طرف سے طے شدہ بات ہے ،مقرر ہے۔ پھر ہم نجات دیں گے اہل تقویٰ کو اور جو ظالم ہوں گے ان کو گھٹنوں کے بل اسی دوزخ میں رہنے دیں گے- صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری سے حدیث مروی ہے کہ

یہ پل تلوار کی دھار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہو گا،،

اللہ اکبر! اس پل پر سے تو کوئی مہارت کے ساتھ بھی نہیں گزر سکتا مگر جس کو اللہ نجات دے۔ سورۃ مریم کی آیت کے کے حوالے سے امام ترمذی کا بھی یہی فہم ہے کہ یہ پل جہنم پر رکھا ہوا ایک پل ہے جس پر سے لوگوں کو گزرنا پڑے گا اور ہر شخص اپنے اعمال کے مطابق گزرے گا۔ بعض لوگ بجلی کی سی تیزی سے گزریں گے بعض ہوا کی تیزی سے، بعض گھڑ سوار کی رفتار سے، بعض بھاگتے ہوئے ،بعض پیدل چلتے ہوئے اور بعض گھسٹتے ہوئے اور پھر لوگ کٹ کٹ کر دوزخ میں گر رہے ہوں گے۔ پھر وہ دوزخ میں رہیں گے یہاں تک کہ اللہ ان کے لیے کوئی فیصلہ نہ فرما دے ۔ بُخاری مسلم کے الفاظ ہیں کہ جب لوگ پل صراط کے اوپر سے گزر رہے ہوں گے۔پل صراط کی دونوں جانب انکڑے لگے ہوں گے جس طرح کانٹے ہوتے ہیں اور وہ گزرنے والوں کو زخمی کر رہے ہوں گے اور اٹھا اٹھا کر مجرمین کو دوزخ میں پھینک رہے ہوں گے،،
پل صراط پر گھپ اندھیرا ہے جس کے پاس ایمان کی روشنی ہو گی اس کے لیے تو راستہ واضح ہوتا جائے گا کہ ایمان ایک نور ہے روشنی ہے اور یہ نور راستے کو روشن کر دے گا۔اور جو اس نور سے محروم ہو گا وہ ڈگمگا جائے گا۔پل صراط کو کراس کرنے کے لیے دنیا میں صراط مستقیم پر چلنا ہو گا۔ صراط مستقیم کی پیروی کرنی ہو گی۔ادھر اُدھر کے راستے تو ہمیں بھٹکا دیں گے۔صرف صراط مستقیم کی پیروی۔

بخاری مسلم میں موجود حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ،، سب سے پہلے میں اپنی امت کو لیکر اس کے اُوپر سے گزروں گا اور اس کے بعد باقی انبیاء بھی اپنی امت کے لوگوں کو اپنے ساتھ لیکر گزریں گے اور ہر نبی کی زبان پر رب سلم، رب سلم ہو گا۔ اے اللہ سلامتی ہو، اے اللہ سلامتی ہو ۔اے سلامتی فرمانے والے رب سلامتی فرما۔ یہ کلام صرف انبیاء کر رہے ہوں گے۔ انبیاء کے علاوہ کسی کو اجازت نہیں ہو گی۔ باقی سب کی زبانیں گم ہوں گی۔ سارے نبیوں سے ہوتے ہوئے لوگ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ کہیں گے بس ایک ہی شخص ہے جسے یہ عمل ملا ہوا ہے تم محمد رسول اللہ کے پاس جاؤ وہ شفاعت کریں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اپنی امت سے اعلان برات کر دیں گے، حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی لیکن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہه رہے ہوں گے اے اللہ میری امت،اے اللہ میری امت۔

آپ صل اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا میں بھی رو رو کر ہمارے لیے دعائیں کیں اور آخرت میں بھی اپنی امت کی معافی اور بخشش کے لیے اس حد تک اللہ تعالٰی سے استدعا کریں گے کہ جہنم کا دروغہ فرشتہ مالک عرض کرے گا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے اپنی امت پر اللہ تعالٰی کے غضب و غصه کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑی۔ اے امت محمد کیا رسول اللہ نے کبھی اپنی امت کو فراموش کیا۔ کبھی نہیں ہم نے کس عذر کی بنا پر اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کی پیروی کے حق کو فراموش کر دیا۔ یوم عرفہ کو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ارشاد فرمایا کہ ہم آپ کے اس دین محمدی کو دنیا کے چاروں کونوں تک پہنچائیں۔ ہم نے تو دنیا کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرنا تھی، ہم تو خود بھٹک گئے ہیں۔

*شوق منزل نہ راستہ معلوم*

اے اللہ۔۔۔۔۔۔۔، ہم روز محشر آپ کا سامنا كس طرح کریں گے۔
اے اللہ ہمیں شیطان کے وسوسوں سے بچا ۔ اے اللہ ہم نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا ہے، براہِ کرم ہمیں معاف فرما اور اپنے راستے کی طرف رہنمائی فرما۔
اے االلہ ہم تیرے شکر گزار ہیں کہ تو نے اپنے عرش پر لکھا کہ تیری رحمت تیرے غصے پر غالب آ جاۓ گی۔
اے اللہ ہمیں صراط مستقیم پر چلا تاکہ ہم پل صراط کو آسانی سے عبور کر سکیں اور نبی صلی االلہ علیہ وسلم کو ہم سے راضی کر دے ۔
اهدنا الصراط المستقیم

1 comments on “صراط مستقیم اور پل صراط
Leave a Reply