دھوکا

In افسانے, عوام کی آواز
November 19, 2022
دھوکا

ذکیہ پانی پلا دے راحت بیگم چارپائی پر بیٹھے بیٹھے چیخیں آرہی ہوں اماں… شائستہ جو اسٹول پر چڑھی برابر پڑوسن کہ گھر میں تانکا جھانکی میں لگی ہوئی تھی ساس کی آواز پر بد مزہ ہوکر جھنجھلا کر بولی۔۔

لو اماں وہ پانی کا گلاس پکڑاتے ہوۓ بولی۔”کتنی بار منع کیا ہے یوں دوسروں کے گھروں میں نہیں جھانکتے اپنا گھر کا تو تجھے ہوش ہوتا نہیں بچے گلی میں ایسے ہی پھرتے رہتے ہیں بس تجھے سارے محلے کی فکر ہوتی ہے”راحت بہو کو گھورتے ہوۓ بولیں – اندروں شہر میں رہائش پذیر راحت جو اپنے اکلوتے بیٹے ارشد کے ساتھ رہتی تھیں ،اپنے بیٹے ارشد کا بیاہ انہوں نے اپنے ہی محلے کی رہنے والی شائستہ سے کیا تھا ۔

شائستہ کہ حالات بھی راحت کے گھر کے حالات سے ملتے جلتے تھے وہی غربت تنگدستی ہر وقت کی فکریں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں ۔کبھی کبھی شائستہ کا دل چاہتا وہ اس محلے سے نکل جاۓ اور کسی اچھی جگہ رہے.یہ خواب وہ سوچتی تھی نجانے کب سچ ہوگا اب تو اس کے چار بچے بھی ہوگئے تھے۔۔دو بیٹے اور دو بیٹیاں ، سب سے بڑا بیٹا بھی گیارہ سال کا ہوگیا تھا۔ارشد کی چھوٹی سی پرچون کی دکان تھی جس سے ان کا بمشکل گزر بسر ہورہا تھا ۔
کیا بات ہے بڑے خوش ہو کیا لوٹری نکل آئی ہے۔ شائستہ ارشد کے چہرے پر پھیلی خوشی دیکھ کے بولی۔

آج ارشد دکان سے آیا تو بے حد خوش تھا۔
ایسا ہی  سمجھو  لوٹرنکل آئی ہے۔
ارشد خوش ہوتے ہوئے بولا۔ “اماں میرا دوست ہے  نہ محمود اس کا کوئی رشتے دار باہر ملک میں ہے وہ اپنا گھر بیچ رہا ہے سستے داموں اور گھر بھی بہت اچھے علاقے میں ہے
میں سوچ رہا ہوں کہ ہم چل کر دیکھ لیں “ارشد کی بات پر تو شائستہ کی خوشی دیکھنے والی تھی- اس کا برسوں پرانا خواب سچ ہونے والا تھا۔

جب سب لوگ وہ گھر دیکھنے گئے تو ان کی تو آنکھیں حیرت سے پھٹ گئی۔
اتنا شاندار گھر اتنے سستے داموں بیٹا مجھے تو ہضم نہیں ہورہا راحت بیگم بیٹے سے بولیں ۔

ارے اماں قسمت ہم پر مہربان ہے تم کیوں سوچ رہی ہو بس تیاری کرو میں یہ گھر اور دکان بیچ رہا ہوں۔۔ محمود نے اپنے آفس بات کرلی ہے وہ وہیں مجھے نوکری دلا دے گا.بیٹا تو سب جمع کنجی دے رہا ہے راحت بیگم کہ لہجے میں اندیشے بول رہے تھے۔ارے اماں بس اب اس گندے گٹر زدہ ماحول سے نکلنے کی کرو میں تو جب سے اپنا حسین گھر دیکھ کہ آئی ہوں تب سے  مجھے  یہاں ایک ایک پل بھاری پر رہا ہے. شائستہ حقارت سے بولی۔ ایسے مت بولو۔ شائستہ کی بات راحت بیگم کو ناگوار گزری۔ میں تو اب خوب ماڈرن کپڑے بناؤں گی وہاں ایسے گھٹیا کپڑے کون پہنتا ہوگا ۔ شائستہ بولی ۔ انسان کو اپنا اصل نہیں بھولنا چاہیے راحت بیگم اس کی بات پر افسوس سے بولیں ۔

شائستہ اب پورے محلے میں ایک ایک گھر میں جا کر بتاتی رہی کہ وہ لوگ اس غریب محلے سے جا رہے ہیں.جس محلے میں وہ پیدا ہوئی تھی اب اس کو برا بھلا بولتی پھر رہی تھی۔ محلے والوں کو شائستہ کی یہ باتیں اچھی نہیں لگ رہی تھی کہ مگر شائستہ کو اب کسی کی پرواہ نہیں تھی اسے اب وہ لوگ بھی غریب نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔گھر چھوڑتے وقت سب سے زیادہ دکھی راحت بیگم تھیں بار بار ان کی آنکھیں نم ہورہی تھیں ۔ جب ان کی ٹیکسی اس گھر کے پاس آکر رکی شائستہ سمیت پورے گھر کی خوشی دیکھنے والی تھی ۔ وہ لوگ سامان لے کر گیٹ کی طرف بڑھے۔ اوئے کہاں جاتے ہو خانہ خراب پٹھان چوکیدار جلدی سے راستہ روکتا ہوا بولا۔ ہمارا گھر ہے یہ ارشد پٹھان کی بات پر غصّے سے بولا۔

اوہ تمہارا دماغ خراب ہے یہ صارم صاحب کا گھر ہے وہ پٹھان گھورتے ہوئے ارشد کو بولا ۔مگر ہم نے تو یہ گھر خریدا ہے ارشد اس کی بات پر چکرا کر رہ گیا.چوکیدار اس کو اندر لے گیا جہاں پر ارشد کو پتا چلا کہ اس کو اس کے دوست محمود نےدھوکا دیا تھا۔ اس کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کے ساتھ اتنا بڑا فراڈ ہوا ہے کہ نقلی کاغذات اس کو گھر کے دئیے گئے تھے ۔ اس کو لگ رہا تھا اس کی دنیا اندھیر ہوگئی ہے-ارشد محمود کے آفس گیا تو وہاں پر پتا چلا محمود   آفس چھوڑ چکا ہے اور ملک سے فرار ہوگیا ہے ۔ اس سے پہلے بھی وہ لوگوں کہ ساتھ دھوکہ  کر چکا ہے ۔

ارشد کو یقین نہیں آرہا تھا اس کے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کر گیا اس کا اپنا دوست، اب تو وہ سب کچھ گنوا چکا تھا- شائستہ ایک بار پھر اس ہی گٹر زدہ ماحول میں لوگوں کی تمسخر اڑاتی نگاہوں کا سامنا کرتے ہوئے سر جھکائے کھڑی تھی جہاں سے وہ اتنے دعوے سے کہہ کر نکلی تھی کہ میں تو کبھی اب اس گندے ماحول میں نہ آؤں مگر کون جانتا ہے کہ وقت کس کو دوبارہ کہاں لا کھڑا کرے ۔۔

One comment on “دھوکا
Leave a Reply