اسلام، منیجمنٹ سائنسز کی عینک میں

In اسلام
December 30, 2020

“اسلام” اصطلاح و مفہوم کے لحاظ سے اس سے بالکل مختلف ایک شے ہے جسے ہم نے فی زمانہ پیش کیا ہے۔ اسلام نیچریت کا دوسرا نام ہے، ہم نے اسے مافوق الادراک بنایا ہوا ہے۔ اسلام جمالیات کی عینک لگا کر نظر آسکتا ہے، ہم نے وحشت کی نظر اپنائی ہوئی ہے۔ اسلام مستقل کوئی دیگر ادیان کی طرح سبیل نہیں ہے، ہم نے اسے مذہب تک محدود کر دیا ہے۔ اسلام سراسر محبت اور غیرجانبداری کا عظیم درس لیے ہوئے ہیں، ہم نے اسے پوزیشنگ سیٹلائٹ بناکر بمثلِ توپ بنادیا ہے۔ اسلام سر تا پا سیکولرازم ہے، ہم نے اسے جنونیت میں تبدیل کردیا ہے۔ اسکو جہاں تک ممکن ہو عصری اصطلاحات میں سمجھایا جائے تاکہ وہ چیز عقل و ادراک کے دائرے میں آخری ممکن حد تک آسکے، لیکن کیا کہنے ہمارے مہربانیوں کے، کہ اسکو کو چھٹی صدی کے پرانی تعبیر میں پیش کرکے عربی کے موٹے موٹے اصطلاحات میں بند کرکے نہ خود کےلیے قابل فہم چھوڑا نہ عام لوگوں کےلیے اس واسطے کوئی راستہ چھوڑا کہ وہ اسے سمجھیں!
آج انہی مہربانیوں کا ثمر ہے کہ مذہب اپنے تمام تر لغات سمیت بس اصطلاحات میں ہی قید ہوکر رہ گیا ہے اور ہم محض نسل در نسل اسے رٹتے آرہے ہیں۔ آج مذہب وہ دوائی بن چکا ہے جو جتنی لی جائے لوگ اتنے ہی اس سے پاگل ہو جائے۔ مذہب کا مقصد تھا کہ لوگوں کو انسان بنائے۔ مگر ہماری مہربانیوں کے طفیل آج جو جتنا اسکا ہو جاتا ہے اتنا ہی انسانیت کےلیے مضر بن جاتا ہے۔
غرض ضروری ہے کہ ہم اسلام پر بھی منجمنٹ سائنسز کا ایک اصول لاگو کرے اور اسکو ہوبہو کہ جس طرح وہ ہے، عصری مفہوم میں پیش کریں۔ اسکو نفرت کی بجائے محبت مائل ثابت کریں۔ توڑ کی بجائے صحیح معنوں میں وحدت کا ذریعہ بنائیں۔ وحشت کی بجائے اس سے انس کا طریقہ سیکھیں۔ غلاظت کی بجائے اس سے جمالیات کا درس لیں۔ جو اسکے اہداف ہیں اسکو انہیں تک محدود کریں، ہر فن مولا نہ بنائیں۔ جو حدود اسکے دائرے سے باہر ہیں ان میں سے اسکو باہر رکھیں۔ اسی جانب بزرگ اشارتا تنبہات کرتے ہوئے کہہ گئے ہیں کہ “سمجھو نہیں تو بھولا دئے جاو گے، بدلو نہیں تو مٹ جاو گے” اب ہم پر ہیں کہ بدلتے ہیں یا مٹنا پسند کرتے ہیں کہ موجودہ روش کی انتہا ابدی زوال ہی ہے اور کامیابی اس سے بالکل مخالف سمت پر!

/ Published posts: 19

I am GameDevloper , but I am interested writing and reading Urdu