364 views 0 secs 0 comments

عشق و جنون کی لازوال داستان سلطان محمد فاتح | حافظ علی حسن شامی

In اسلام
December 30, 2020

سن ١٤٠٢ عیسویں کہ غیرت، شجاعت اور بہادری سلطان بایزید یلدرم کو قسطنطنیہ کا محاصرہ کروا چکی ہے۔ قریب ہے کہ قسطنطنیہ فتح کرلیا جاۓ۔ وہاں ذلت و رسوائی کی انتہا یہ ہے کہ عیسائی بادشاہ راضی ہوچکا ہے کہ آئندہ قسطنطنیہ پر حکمران سلطان بایزید یلدرم کی نامزدگی پر بنایا جائے گا۔ عین اس وقت جب سلطان یورپ کی فتح میں مصروف ہے اور قریب ہے کہ قسطنطنیہ کی وہ دیواریں جو صدیوں سے عیسائیت کی محافظ تھیں توڑ دی جاتیں۔ وسطی ایشیاء سے ایک منگول حکمران “تیمور لنگ” جو باظاہر تو مسلمان ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے لیکن اس کی تلوار سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہی ہوا ہے۔ اسلامی نظریات اور اخلاقیات سے بلکل باغی نے وسطی ایشیاء سے نکل کر انا طولیہ میں آلِ عثمان کی حکومت پر حملہ کر دیا ہے۔ یہ حملہ تیمور لنگ نے قسطنطنیہ کے بادشاہ کی دعوت پر کیا تاکہ بایزید یلدرم قسطنطنیہ فتح نہ کرسکیں۔

وہاں سلطان بایزید یلدرم نے مجبوراً اپنا محاصرہ اٹھانے کا حکم دے دیا ہے اور مختصر فوج کے ساتھ تمیور لنگ کا مقابلہ کرنے ایشیاء کی جانب نکل پڑے ہیں۔ لیکن فطرت کو کچھ اور ہی منظور ہے۔ سن ١٤٠٢ عیسویں انگورہ کے مقام پر تمیور لنگ کی پانچ لاکھ فوج کے مقابلے میں بایزید یلدرم ایک لاکھ کی قلیل فوج کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ مغل دستوں کی بے وفائی، سراب اور فرانسیسی سرداروں کی کمزوری کی وجہ سے سلطان کی فوج تباہ کردی گئی ہے۔ سلطان کو قیدی بنالیا گیا ہے اور سلطان کا بیٹا مصطفیٰ میدان جنگ میں شہید کردیا گیا ہے۔ تمیور لنگ سلطان کے ساتھ بہت بے رحمانہ سلوک کر رہا ہے۔ ان کو پنجرے میں بند کر کے اپنی فوج کے ساتھ گھما رہا ہے۔ اس پنجرے میں سلطان بایزید یلدرم کا آٹھ مہینے بعد انتقال ہو گیا ہے۔ وہ سلطنت جو اپنے عروج میں اچانک زوال کا شکار ہوگئی کہ تصور کیا جارہا ہے کہ ختم کردی گئی ہے۔

لیکن سن ١٤١٣ عیسویں دس سے بارہ سال کے زوال کے بعد سلطان محمد اول جوکہ سلطان بایزید یلدرم کا چھوٹا بیٹا ہے تخت پر بیٹھ چکا ہے۔ جس نے سلطنتِ عثمانیہ کو آندھیوں اور طوفانوں کے بگولوں سے نکال کر ایک دفعہ پھر قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کو تیار کردیا ہے۔ وہ شجاعت و بہادری کی دلفریب داستان کا پھر آغاز کردیا گیا ہے۔سن ١٤٨١ عیسویں بیٹھا ہے تخت پر وہ مردِ قلندر، مردِ درویش اور مردِ مجاہد کے جس کا صدیوں سے تاریخِ اسلام کو انتظار تھا۔ وہ ولولہ، وہ رعب اور جلال جس کا نام سلطان محمد ثانی رحمۃ اللہ علیہ ہے کہ جس کو آئندہ آنے والی تاریخ “سلطان فاتح” کے نام سے یاد کرنے والی ہے۔

ایک دیوانہ رات کو خواب دیکھ رہا ہے۔ جس میں ایک نورانی چہرہ اس کا ہاتھ پکڑے اسے بشارت دے رہا ہے کہ قسطنطنیہ پر حملہ کرو۔ فتح تمہارا نصیب ہے۔ وہ نورانی چہرہ کوئی اور نہیں صحابیِ رسولﷺ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں۔ جن کو قسطنطنیہ کے پہلے حملے کے دوران بیماری کی وجہ سے انتقال ہو جانے پر قلعے کی دیواروں کے قریب دفنا دیا گیا تھا اور وہ دیوانہ کوئی اور نہیں سلطان محمد فاتح ہے۔

قال رسول کریمﷺ: “لتفتحن القسطنطنیۃ فلنعم الأمیر أمیرھا و لنعم الجیش ذلک الجیش”۔

رسول کریمﷺ نے فرمایا: “تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرلو گے، وہ امیر بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی”۔

سن ١٤٥٣ عیسویں کہ شروع ہوتی ہے عشق و جنون کی وہ لازوال داستان جسے خونِ جگر سے لکھا جائے، تو عثمانی ترکوں کی عظیم رومانی داستان جنم لیتی ہے۔ وہ عشقِ رسولﷺ اور ادبِ رسولﷺ میں دیوانے، وہ پراسرار لوگ ذوقِ خدائی اور لذتِ آشنائی سے نوازے گئے کہ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔ جب تلواریں اٹھائے قسطنطنیہ کے قلعے پر یلغار کر رہے ہیں۔ تو ایک سماں ہے جو تلواروں کی چھنک سے حالتِ وجد میں ہے۔ ایک ناقابلِ یقین باب ہے جو تاریخ کی کتابوں میں رقم ہونے کو تیار ہے اور ایک حدیثِ رسولﷺ ہے جو جنت کی بشارتیں دیتی جارہی ہے۔

قلعے کی دیواروں پر مسلسل یلغار کرتے وہ دیوانے نہ دن دیکھ رہے ہیں نہ رات، بس اس بشارت کو پورا کرنے کے لیے جس کا سفر صحابیِ رسولﷺ حضرت عثمانِ ذوالنورین سے شروع ہوتا ہوا جنتی سلطان محمد فاتح کے دروازوں پر دستک دے چکا ہے۔ لیکن قلعے پر مسلسل یلغاروں کے باوجود قلعے کی دیواریں اپنی مضبوطی کی علامت ثابت کرتے ہوئے ویسے ہی کھڑی ہیں۔پھر شجاعت و بہادری، عشق و دیوانگی کی وہ دل فریب اور ناقابلِ یقین داستان کا آغاز ہوتا ہے۔ جس کو عقلِ انسانی کئی کوسوں دور کھڑی تکتی رہی اور وہ دیوانے عشقِ رسولﷺ کے انگارے اپنے دلوں میں بھڑکاۓ دیوانہ وار زمانے کی سختیوں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

اندھیری رات ایک عجیب سماں دیکھ رہی ہے کہ دن بھر قلعے پر مسلسل یلغاروں کے بعد وہ تھکے دیوانے سلطان کے حکم سے اپنے سے کئی بڑے اور وزنی بحری جہازوں کو سمندر سے رسی ڈالے خشک زمین پر گھسیٹ رہے ہیں تاکہ صبح ہونے سے پہلے ان مضبوط فصیلوں سے پار اپنے بحری جہازوں کو پانی میں اتار دیں۔ جو قلعے کے ایک طرف حفاظت کے لیے لگائیں گئیں تھیں۔

یہ آخری راستہ ہے قلعہ فتح کرنے کا اور ان دیوانوں نے عشقِ رسولﷺ میں مست اپنے سے کوسوں بڑے اور وزنی بحری جہازوں کو خشکی پر سے گھسیٹتے ہوئے پانی میں لا کھڑا کیا ہے۔ صبح اب دشمن عثمانیوں کے بحری جہازوں کو فصیلوں کے پار دیکھ رہا ہے۔ تو ایک حیرت ہے جو چہروں پر سے جا نہیں رہی اور ایک عقل ہے جو مان نہیں رہی۔

قلعے پر ایک دفعہ پھر گولا باری شروع ہو چکی ہے اور عثمانیوں کے بحری جہازوں کے سامنے دشمن کے جہاز راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ قلعے میں موجود لوگ اس انتظار میں ہیں کہ ابھی فرشتے اور دیوتا آسمان سے اتریں گے اور عثمانیوں کو پیچھے دھکیل دیا جائے گا۔ کیونکہ قسطنطنیہ برسوں سے عیسائیوں کا مرکز تھا اور صدیوں سے کوئی اس کو فتح نہیں کر سکا تھا۔

سلطان اور اس کی فوج فصیلوں کے نیچے سے ہوتی ہوئی، قسطنطنیہ میں داخل ہوچکی ہے۔ وہ شہر اور وہ دیواریں جو صدیوں سے عیسائیوں کی محافظ تھیں آج مسلمانوں کے قدموں تلے روندی جاچکی ہیں۔ وہ بشارت جس کو پانے کے لیے مسلمان صدیوں سے قسطنطنیہ پر حملے کر رہے تھے۔ آج سلطان محمد فاتح سلطان الثانی محمت دوئم اور اس کی فوج کے نصیب میں لکھ دی گئی ہے۔

سلطان محمد فاتح سن ٢٩ میٔ ١٤٥٣ جمعہ کے روز ٥٣ دن کے محاصرے کے بعد قسطنطنیہ شہر میں داخل ہو رہے ہیں اور آیا صوفیا جو عیسائیوں کا مشہور گرجا گھر ہے میں جا کر صلیبوں کو توڑ رہے ہیں اور ہر طرف ایک ہی صدا جو برسوں سے منتظر تھی قسطنطنیہ کے در و دیوار سے گونج رہی ہے۔

/ Published posts: 2

آپ سائبر سکیورٹی تجزیہ کار اور گریے ہیٹ ہیکر ہیں۔ آپ اپنی محققانہ اور متکلمانہ صلاحیت سے لوگوں کو خطرات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ آپ اردو ادب میں نثرنگاری اور شاعری بھی کرتے ہیں۔

Twitter
Facebook
Instagram