الحاد کی تعریف اور اس کا آغاز

In اسلام
December 31, 2020

اللہ تعالی نے جو آسمانی ہدایت اس دنیا کو عطا فرمائی وہ تین بنیادی عقائد پر مشتمل ہے توحید،نبوت و رسالت،آخرت۔اللہ رب العزت نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے لیکن اب اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اس کو بنا کر معاذاللہ فارغ ہوگیا ہےبلکہ وہی اس نظام کو چلا رہا ہے۔اللہ تعالی نے انسانوں وجنوں کو اچھائی اور برائی کی تمیز سکھائی ہے کہ اچھائی کیا ہے اور برائی کیا ہے اس کو اخلاقیات کہا جاتاہے۔اللہ نےاپنے پیغمبروں کوبراہ راست خطاب کیا پھر مزید ہدایات جاری کیں کہ کس طرح انسانوں نے زندگی گزارنی ہے۔لیکن ابھی اس کا سلسلہ ختم نہیں ہوا کیونکہ اس کے بعد ایک ابدی زندگی ہے جو کبھی بھی ختم نہیں ہوگی جس کو آخرت کہا جاتاہے۔ الحاد کوعموما لادینیت اور خداکے وجودکا انکار کرنے کو کہا جاتا ہے۔

ہمارے نزدیک یہ تینوں عقائد ایک دوسرے سے مربوط ہیں جو اوپر بیان کیے گئے ہیں۔اگر کوئی ان میں سے کسی ایک کا انکار کرتاہے باقی دو خود بخود غیر موثر ہو جائیں گے۔اسلیے ان میں سے کسی ایک کے انکا ر کو بھی الحاد کہا جائے گا ۔ویسے عام طور پر اس کو اگناسٹک کہا جاتا ہے جو الحاد کا حصہ ہے۔ زمانہ قدیم میں الحاد کسی نہ کسی شکل میں تھا لیکن بہت کم تھا۔دنیا کے بڑے ادیان میں سے صرف بدھ مت کے ہاں تصور پایا جاتا ہے خدا کے انکار کا۔ہندووں کے فرقوں میں سے جس نے خدا کا نکار کیا وہ جین مت ہے۔اس کے علاوہ بعض فلسفیوں نے خدا کے وجود کا انکار کیا۔بہرحال الحادیت قدیم زمانوں میں بہت کم تھی۔عالمی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے الحاد اس دنیامیں مضبوط نہ ہوسکاکبھی اللہ اور اسکے انیباء علیھم السلام کو ماننے والے غالب ہوتے اور کبھی مشرکین۔مطلب یہ اپنی جڑ کو مضبوط نہ کر سکا۔ جب سے عالمی طاقتوں نے اس کو قبول کرنا شروع کیا تو یہ بھی دن بدن دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے لگا۔پچھلے دو سوسالوں سے الحاد اپنی جڑوں کو مضبوط کرنا شروع کیا سب سے پہلے جو طاقت استعمال ہوئی اس کو پھیلانے کے لیے وہ برطانیہ سلطنت تھی جو شیطانی خفیہ طاقتوں کا مہرہ تھی جس کی ڈور ان کے ہاتھ میں تھی ویسے اس کا آغاز تو تیرہویں صدی کے آغاز میں ہی ہو چکا تھا یورپ میں۔

جب کلیساء کے خلاف سائنس نے اعلان جنگ کر دیا یورپ کا عیسائیت کو قبول کرنا تیسری صدی عیسوی میں عیسائی حکومتیں قائم ہو چکی تھی اور پوپائیت پوری طرح مستحکم ہو چکی تھی۔قسطنطین کے عیسائی دین کو قبول کرنے کی وجہ سے عوام نے تیزی کے ساتھ عیسائیت کو قبول کرنا شروع کر دیا شرک اور بت پرستی کا خاتمہ ہو چکا تھا اور جو عیسائیت کو قبول نہ کرتا اس کو ختم کردیا جاتا ۔یہ الگ بات ہے کہ عیسائیت میں حلول اور حضرت عیسی علیہ السلام کو معاذاللہ خدا کا بیٹا ماننے کا عقیدہ پیدا ہو گیا تھا۔

اس کے بعد عیسائیت نے ارسطو اور افلاطون کے نظریات و افکار کو اپنے دین میں شامل کر دیا جیسے کہ اس کائنات کا مرکز زمین ہے اور یہ ساکن ہے سورج اور اس کے علاوہ جتنے اجرام فلکی ہیں وہ زمین کے گرد گھومتے ہیں ۔اگر دیکھا جائے سورج کا زمین کے گر د گھومنا قرآن میں اس کا ذکر موجود ہےیہ نظریہ سائنس کا بالکل غلط ہے ۔ابھی تک سائنس یہ بھی ثابت نہیں کرسکی کہ زمین گول ہے یا فلیٹ اس میں سائنسدانوں کا شدید اختلاف ہے ۔

باقی رہ گئی ناسا کی تحقیقات کی وہ تو ایک دجالی ادارہ ہے جس کا کام ہے اس دنیا پر شیطان کی حکومت کوقائم کرنا ہے اس کی اکثر تحقیقات جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں ۔انسان کا چاند پر جانا وغیرہ۔یہ بات جملہ معترضہ کے طور پر کر دی ہے میں نے۔ارسطو اور افلاطون کے نظریات کو قبول کرنے کے بعد عیسائیت میں شدت آ چکی پادریوں اور پوپ نے اس کو دین حصہ بنا دیا جس کو آج تھیو کریسی کہا جاتا ہے ۔آہستہ آہستہ عیسائیت فرقوں میں تقسیم ہو چکی اور ان میں اخلاقی کمزوریا بھی پیدا ہو چکی تھیں تو اسی دور میں مسلمان اس دنیا پر عسکری معاشی اور علمی طور پر چھا گئے اور سائنس کے میدان بہت زیادہ ترقی کرنے لگے بالخصوص خلافت عباسیہ کے دور میں۔مسلمانوں نے یونانی سائنسدانوں کی کتب کا عربی میں ترجمہ شروع کر دیا ۔مسلمانوں کی حکومت یورپ تک پھیلی ہوئی تھی ۔اور یورپ اس وقت جہالت میں ڈوبا ہواتھاویسے تو آج بھی یہی جہالت کا مرکز ہےلیکن دین اور اخلاقیات کے اعتبار سے۔