میراثی

In عوام کی آواز
December 31, 2020

شام کے 4 بجے تھے اور میں آفس کے کام کو مکمل کرنے کی کوشش میں تھا.اس دوران میں ہلکا سا سر درد بھی محسوس کر رہا تھا.کیونکہ میری ڈیوٹی ختم ہونے میں ابھی کافی وقت باقی تھا،اور میرے لیے سر درد کے ساتھ ڈیوٹی کرنا کافی مشکل ہو جاتا ہے.

میں اپنی کُرسی سے اُٹھا اور آفس کے کچن میں گیا.تاکہ اپنے لیے ایک کپ چائے بنا سکوں،کیونکہ سر درد شدت اخیتار کر رہاتھا.اتنے میں آفس کا دروازہ کھول کر ایک نو عمر لڑکا جس کے ہاتھ میں جوتے پالش کرنے والا ایک برش تھا،اور اس نے ایک بیگ اپنے کندھے پر لٹکا رکھا.جس میں شاید اس نے پالش وغیرہ رکھی ہونگی ہمارے آفس کے اندر داخل ہوا.میں نے اس لڑکے کو دیکھتے ہی کہا کے کیا کام ہے۔۔۔؟اس نے مجھ سے کہا کہ آج مجھے کوئی کام نہیں ملا، اور میرے آگے ہاتھ جوڑ کر اس نے کہا کے مجھے اللہ کے نام کچھ دے دو میری مدد کر دو.کیونکہ میرے سر میں درد تھا پہلے تو میں نے اس سے کہا معاف کرو اور یہاں سے چلے جاوُ اللہ تمہارا بھلا کرے.

مگر وہ لڑکا مسلسل مجھے سے مدد کی اپیل کرتا رہا.کیونکہ میں کچن میں چائے بنانے میں مصروف تھا.اور وہ دروازے میں کھڑا مجھے دیکھ رہا تھا.پھر پتا نہیں میرے دل میں اس کے لیے رحم آگیا اور میں نے جیب سے کچھ پیسے نکال کر اُسے دیے.اور میں ساتھ ہی اُسے کچھ نصیحت کرنے لگا۔کہ دیکھو مانگنا ٹھیک نہیں یہ عمر تمہاری پڑھائی کرنے کی ہے.نہ کہ کام کرنا یا مانگنا اور میں نے اس سے یہ بھی کہا کے یہ پہاڑ جیسی زندگی مانگنے سے نہیں گزرے گی.کچھ اور کام کرنے کی سوچو جس سے تمہارا گزر بسر بہتر ہو.مانگنا اچھی عادت نہیں.اُس لڑکے نے مجھے جواب میں کہا بھائی جان میں ایک ’’میراثی‘‘ ہوں.میں نوکری کے لیے جس کے پاس بھی جاتا ہوں تو وہ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تمہاری ذات یا قوم کیا ہے.؟اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں ’’میراثی‘‘ ہوں تو کوئی مجھے کام پر نہیں رکھتا.مجبور ہوکر مجھے لوگوں سے مانگنا پڑ رہا ہے.

میرے گھر میں میری ماں اور دو بہنیں ہیں اور باپ فوت ہوگیا ہے.اب اُن کی ذمہ داری مجھ پر ہے میں جو کماتاہوں شام کو اپنے گھر والوں کے لیے کچھ کھانے کو لے جاتا ہوں.اب آپ ہی بتائیں کہ میں مانگو نہ تو اور کیا کروں۔۔۔۔۔؟مجھے اُس کی باتیں سُن کر افسوس ہو رہا تھا.مجھے نہیں معلوم وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ….خیر میری جیب میں اُس وقت جتنے پیسے تھے.میں نےاس لڑکے کو دے دیے اور وہ پیسے لیتا اور دُعا دیتا ہوا چلا گیا.مگر اس کی باتیں میرے دماغ میں گھوم رہی تھیں۔اور دل ہی دل میں خود سے کہہ رہا تھا،کہ سب سے پہلے ہم ایک انسان ہیں.اللہ تعالی نے ہم سب انسانوں کو ایک جیسا ہی پیدا کیا ہے.ہمیں ایک دوسرے کا احساس کرنا چاہیے.میں یہاں بخاری شریف سے ایک حدیث کا ذکر کرتا چلوں.نبی اکرم (ص) نے فرمایا.

“اللہ تعالی ہر انسان کو فطرت اسلام پیدا فرماتا ہے.اُس کے ساتھ رہنے والے لوگ اُسے اپنے جیسا بنا دیتے ہیں.(بخاری شریف)ساری مخلوق اللہ تعالی کا کنبہ ہے۔اور وہ بلاتفریق سب کو رزق عطا کر رہا ہے تو ہمیں بھی ایسے لوگوں کا خیال کرنا چاہیے.