سال دو ہزار بیس کا شاہکار

In دیس پردیس کی خبریں
January 02, 2021

سال دو ہزار بیس اگرچہ “بڑوں” پر گراں گزرا، کچھ گرانی ہم نے بھی محسوس کی البتہ یہاں وہاں کرکے مجموعی طور پر کار آمد گزارا۔ اس سال جہاں دیگر سرگرمیاں بھی کافی ساری ہوئی اور شاید کوئی بیرونی ناظر انھیں میں سے کسی کو اہمیت دے البتہ میں خود سال دو ہزار بیس کو “غبارِ خاطر” کے نام کرتا ہوں۔ غبارِ خاطر محض ایک کتاب کا نام نہیں، ایک “زندگی” کا نام بھی نہیں، بلکہ آدم سے لیکر اس مقام تک، اور موجود مکان کی لامکانیت میں بہت دور تک، کی ایک اصلیت کا نام ہے۔ اسے پڑھا نہیں جاتا بلکہ محسوس کیا جاتا ہے، اور چلتے چلتے اس میں احساس بھی جواب دے جاتا ہے پھر اسے جیا جاتا ہے۔

سوچتا ہوں تمام تر مطالعے کی قیمت یہی کافی ہے کہ اس نے غبارِ خاطر سے آشنائی دی۔ پسندیدہ ترین کتابوں میں قرآن مجید سرفہرست ہے، جس پر کامل عبور کا فقدان اپنی نالائقت ہے۔ دوسرے شمارے پر حجتہ اللہ البالغہ ہے، جسکی باعثِ پسندیدگی اِسکا اپنا کمال ہے۔ تیسری غبارِ خاطر ہے جس میں کوئی رقابت درمیان میں حائل نہیں۔ یہ میری ہے اور میں اِسکا ہوں! غبارِ خاطر کو پڑھنا عبث ہوگا، اسے گانے میں اصل مزہ آئے گا۔ بمشکل ہی ایک کتاب کو ایک بار نظر سے گزار کر دوسری دفعہ اٹھانے کی زحمت گوارا کرتا ہوں۔ غبارِ خاطر کو پہلی دفعہ تو منہ پھاڑ پھاڑ کے پڑھا ہی، ساتھ ہی یہ احساس تھا کہ ختم نہ ہو، ختم ہونے پر پھر اٹھائی، پھر تیسری مرتبہ پھر نظر سے گزاری اور اب تک یہ حالت ہے کہ مہینے بیت گئے، مصروفیات کے باعث معمول کا ذائقہ کچھ سے کچھ ہو گیا مگر اب تک غبارِ خاطر میں ہی جی رہا ہوں۔ لوگ قرآنِ حکیم حفظ کرتے ہیں اور ہمارے ارادے اس پہلو میں غبارِ خاطر حفظ کرنے کے ہیں۔

اسلوبِ قلم کو “آزادانہ” کہنا آزاد کی روح کو عالمِ ارواح میں تڑپانا اور جسد کو قبر میں بےسکون کرنا ہے البتہ جو کچھ بھی ہے، غبارِ خاطر کے مرہونِ منت ہے کہ قلمِ آزاد کا گمراہ پیرو بھی بہت سے راست راہوں کا پیشوا بن جاتا ہے۔ الغرض سال دو ہزار بیس کا سب سے خوشکن واقعہ “غبارِ خاطر” سے تعارف ہے، جسے واقعی “شاہکار” کا نام دے سکتا ہوں۔ غبارِ خاطر سے آشنائی کے بعد خاطر پر نہ کوئی گرد رہا نہ غبار، اسی کے نام یہ سال کرتا ہوں!

/ Published posts: 19

I am GameDevloper , but I am interested writing and reading Urdu