واقعہ کربلا دس محرم الحرام

In اسلام
January 02, 2021

یزید نے نواسہ رسول کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ اگر وہ میری بیعت نہ کرے تو اسے قتل کر دیا جاۓ۔ فوج یزید جو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عزیزو اقارب کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھی ۔۔ اور یہ فیصلہ کیا کہ 9 محرم کو نواسہ رسول اور ان کے ساتھ یاور ان کے ساتھیوں کو قتل کر دیا جاۓ گا ۔ اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جناب عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کی اے عباس جاؤ یزید کے پاس اور اسے بولو ان کے نبی کی بیٹی کا بیٹا کہتا ہے کہ ہمیں ایک رات کا وقت دیا جائے اللہ کی عبادت کے لئے۔ جناب عباس فورا ہی یہ پیغام یزید تک پہنچا تے ہیں اور وہ لوگ ہسنے لگتے ہیں کے بس اب یہ جنگ 9 محرم کو نہیں بلکہ 10 محرم کو ہو گی ۔

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے تمام ساتھیوں کو بلاتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ جو تم سب اتنی بڑی فوج دیکھ رہے ہو یہ سب میرے خون کے پیاسے ہیں ۔ کل مجھے قتل کر دیا جائے گا ۔ میری بہن بیٹیوں کو بے پردہ کر کے بازاروں میں کھڑا کر دیا جائے گا۔ اے لوگوں تم نے مدینہ سے لیکر یہاں تک میرا بہت ساتھ دیا ہے ۔ اب میں تم سب کو حکم دیتا ہوں تم سب واپس اپنے اپنے شہر چلے جاؤ۔ تمہاری جنت کا ضامن میں ہوں ۔ لوگ ادھر اُدھر دیکھنے لگے ۔ اے مو لا یہ آپ کیا فرما رہے ہیں ۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ۔ قیامت کے دن جنت میں شہادت کا مقام تم سب کو میں اپنے نانا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے لیکر دوں گا ۔ سب نے کہا اے مولا اتنی مشکل کی گھڑی میں ہم آپ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے ۔ جب آپ نے سب کے چہروں کی طرف دیکھا تو فرمایا کہ شاید تم سب کو آنکھوں کی شرم نے مارا ہے ۔ آپ نے فرمایا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس چراغ کو بجھا دو ۔ چراغ کے بجھتے ہی آپ سر جھکا کے بیٹھ گئے ۔ اور کچھ دیر بعد آپ نے فرمایا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ چراغ جلا دو ۔ جیسے ہی چراغ روشن ہوا تو آپ نے دیکھا کہ آپ کا چاہنے والا ایک ایک انسان اپنی گردن پر تلوار رکھ کر بیٹھا تھا ۔ اور کہتا ہے اے نواسہ رسول ہم آپ کو اکیلے کیسے ان ظا لموں میں چھوڑ کر جائیں ۔ جب ہم مر جائیں گے تو آپ کی ماں کو کیا منہ دکھائیں گے ۔

اے مولا ہماری تو کیا ہمارے بچوں کی بھی جانیں آپ پر سے قربان ۔ آپ نے فرمایا تو ٹھیک ہے جاؤ اور اللہ کی عبادت میں مصروف ہو جاؤ کل ہمیں اللہ اور اس کے رسول کے دین پر قربان ہونا ہے ۔ ۔ سب مسلمان اللہ کی عبادت میں مصروف ہوگئے ۔ اور رات ڈھلنے لگی ۔ اور صبح 10 محرم کا سورج طلوع ہوا ۔ آذان کی آواز آئی ۔ اور سب نماز ادا کرنے لگے ۔ اور نماز میں ہی کافروں نے حملہ کر دیا ۔ اور مولا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چاہنے والے ایک ایک کر کے حضرت محمد صلی علیہ وآلہ وسلّم کے دین پر سے قربان ہو نے لگے ۔ کبھی عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبھی شہزادہ اکبر کبھی شہزادہ قاسم اور کبھی معصوم علی اصغر ۔ اور جب سب قربان ہو گئے تو مولا حسین خیمے میں آئے اور فرمانے لگے اے میری بہنوں بیٹیوں میرا بھی آخری سلام قبول کرو ۔ سب کی صدائیں عام ہو جاتی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں بہن زینب اب میرے بعد آپ کا امتحان شروع ہونے والا ہے ۔ آپ کو قید کر دیا جائے گا۔ بہن سے ملنے کے بعد آپ دوسرے خیمے میں جاتے ہیں۔ جہاں زین العابدین ہوتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں بابا چچا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہاں ہیں۔ علی اکبر کہاں ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں بیٹا زین العابدین سب ایک ایک کر کے نانا کے دین پر سے قربان ہو گئے ہیں۔ اب میں بھی جا رھا ہوں ۔ زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں نہیں بابا آپ نہیں میں جاؤں گا ۔ میرا امتحان ختم ہونے دو ۔ میرے بعد آپ نے نانا کے دین کی حفاظت کرنی ہے ۔ اس کے بعد آپ میدان میں آ جاتے ہیں اور لوگوں سے فرماتے ہیں پہچانوں مجھے میں تو تمھارے رسول کا نواسہ ہوں ان کا بیٹا ہوں ۔میں وہ ہوں جس کو تمھارا رسول کندھے پر بیٹھاتا تھا سینے پر سلاتا تھا۔آج تم نے اس حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رولایا ہے ۔ جنت کے بدلے دوزخ کو چنا ہے ۔

اتنے میں ظالموں نے آپ پر حملہ کر دیا ۔ ایک طرف کروڑوں کی تعداد میں وہ ظالم تھے اور دوسری طرف بھوکا پیاسا نواسہ رسول ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی لڑنا شروع کر دیا ۔ اور بہت سے ظالموں کو ختم کر دیا ۔ ڈر کر تمام ظالم کوفے کی طرف بھاگے ۔ظالم ابن سعد کہتا ہے شمر تم خاموش کیوں ہو ختم کر دو حسین کو ۔ شمر کہتا ہے میں جاؤں گا تو مر جاؤں گا ۔ وہ حضرت محمد صلی علیہ وآلہ وسلّم کا نواسہ ہے علی کا بیٹا ہے فاطمہ کا لخت جگر ہے ۔ اس سے لڑنا اتنا بھی آسان نہیں۔ شمر نے کہا جاؤ اور خیموں کو آگ لگا دو اور ایک ساتھ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کر دو ۔ اور ظالموں نے خیموں کو آگ لگا دی اور آپ پر تیروں کی بارش کر دی ۔ آپ پر اتنے تیر برسائے کہ آپ بے انتہا زخمی ہوگئے۔ اتنے میں غیب سے آواز آئی حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہتم اپنے امتحان میں کامیاب ہو گئے۔ شمر ظالم کہتا ہے جاؤ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر قلم کر کے لے آؤ اسے یزید کے سامنے پیش کر نا ہے ۔ ایک جاتا ہے اور اسے مولا حسین کے چہرے میں رسول صلی علیہ وآلہ وسلّم کا چہرہ مبارک نظر آتا ہے ۔ پھر شمر خود جاتا ہے اور جب مو لا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن پر خنجر رکھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ مولا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ پڑھ رہے ہو تے ہیں ۔ جب اس نے قریب ہو کر سنا تو آپ فرما رہے تھے” اے اللہ قبول کرنا میری قربانیوں کو ۔ میں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ۔” شمر نے آپ کی گردن پر خنجر چلا دیا اور آپ کا چہرہ مبارک آپ کے دھڑ سے الگ کر دیا ۔ اور پھر خوشیاں منانے لگے ۔ اس کے بعد ظالموں نے خیموں پر بھی حملہ کر دیا اور تمام بیبیوں کو بےپردہ کر دیا ۔ ظالموں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم مبارک کی بے حرمتی کر دی ۔ اور اپنی فتح کا جھوٹا جشن منانے لگے ۔