جمعیت علماء اسلام کا مستقبل

In اسلام
January 02, 2021

جمعیت علماء اسلام کی تاریخ پاکستان سے بھی پرانی ہے۔ اس کی بنیاد 1945 میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے ڈالی جنہوں نے پاکستان بننے کے بعد مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان میں سب سے پہلے ملک کا جھنڈا لہرایا۔ پاکستان بننے کے بعد جمعیت علمائے اسلام کے بھی دو حصے ہوگئے ایک جمعیت علمائے اسلام ہند بن گئی اور دوسری جمعیت علمائے اسلام پاکستان بن گئی۔

یوں مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے یہ جماعت 1971 کے الیکشن میں اس وقت کے صوبہ سرحد موجودہ خیبرپختونخواہ کی حکمران جماعت بن گئی اور مولانا مفتی محمود وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد انکے بیٹے مولانا فضل الرحمان جمعیت کے امیر منتخب ہوئے۔ تب سے یہ جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے۔ پہلے جمعیت علمائے اسلام کو توڑ کر جمعیت علمائے اسلام نظریاتی گروپ وجود میں آیا اس پر بڑا شور و غوغا بلند ہوا کہ اب جمعیت کا وجود باقی نہیں رہے گا لیکن آج اس جمعیت نظریاتی کا کوئی نام و نشان نہیں۔ پھر جب اہل حکم لوگوں نے دیکھا کہ جمعیت تو روز بروز بڑھتی اور ترقی کرتی جارہی ہے تب پھر منصوبہ سازوں نے دوبارہ گیم کھیلی اور جمعیت علمائے اسلام سے مولانا سمیع الحق کو توڑ کر جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق گروپ کے نام سے ایک اور جمعیت کی تخلیق ہوئی۔ حالانکہ مولانا سمیع الحق شہید مولانا فضل الرحمان کے استاد کی حیثیت رکھتے تھے لیکن عوام نے سیاسی لحاظ سے مولانا فضل الرحمان کو مولانا سمیع الحق پر ترجیح دی اور مولانا سمیع الحق کی جماعت بھی عوام پر کوئی تاثر پیدا کرنے یکسر ناکام رہی۔

اور اب ایک بار پھر جمعیت علمائے اسلام میں بغاوت ہوئی اور چار اہم رہنما جمعیت کو چھوڑ گئے اور الگ سے اپنی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا۔ لہٰذا ایسی بغاوت کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا اور ووٹ پھر بھی مولانا فضل الرحمان کے نام کا پڑنا ہے۔ لہٰذا اربابِ اختیار لوگوں کو چاہیے کہ وہ جماعتوں کو توڑنے اور جوڑنے کا سلسلہ ختم کریں اور تمام سٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر ملک کے بارے میں سوچیں، ڈوبتی معیشت پر نظر ڈالیں اور عوام کا سہارا بنیں۔

/ Published posts: 4

میں محمد اسامہ نمل یونیورسٹی ملتان کیمپس میں بی ایس انگلش کا طالب علم ہوں۔

1 comments on “جمعیت علماء اسلام کا مستقبل
    محمد اسامہ Post author

    اچھی تحریر لکھی ہے اور حقیقت پر مبنی ہے

Leave a Reply