نئے سال کا قضیہ

In دیس پردیس کی خبریں
January 04, 2021

عطاءالرحمن چوہان

یکم جنوری سے پاکستان کے نئے سال کا آغاز ہوگیا۔ کچھ لوگ نئے سال کا جشن منارہے ہیں اور کچھ لوگ اس سے برات کا اعلان کر رہے ہیں کہ بطور مسلمان ہمارا اس سال اور رسم سے کوئی تعلق نہیں۔ یقینا بطور مسلمان ہمارا کیلنڈر ہجری ہے، جس کا آغاز یکم محرم سے ہوتا ہے لیکن بطور پاکستانی ہمارا سال یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے کیونکہ پاکستان نے ہجری کے بجائے عیسوی کیلینڈر اختیار رکھا ہے۔

اب سوال یہ ہم کہ ہمیں کس کیلینڈر کو اختیار کرنا ہے۔ ہماری ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور اصولاً اسے ہجری کیلینڈر کو اختیار کرنا چاہیے، جیسے ہماری قومی زبان اردو ہے تو ہمارا نظام مملکت قومی زبان کے مطابق چلایا جانا چاہیے۔ہم کھلی منافقت اور دورنگی کاشکار ہیں۔ کہنے کو ہم مسلمان ہیں۔ ہماری ریاست کا مذہب بھی اسلام ہے اور ہم نے اپنے دستور میں طے کررکھا ہے کہ پاکستان میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے اور عوام کے منتخب نمائندگان اللہ کے نائبین کے طور پر اس کی ہدایت کے مطابق نظام مملکت چلائیں گے۔ یہی دراصل نظریہ پاکستان ہے اور اسی مقصد کے لیے ہمارے آباء نے طویل جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کے بعد پاکستان حاصل کیا تھا۔ المیہ ہے کہ پاکستان کو بانیان پاکستان کی فکر، نظریہ پاکستان اور پاکستانی عوام کی خواہشات کے مطابق چلانے کے بجائے قابض اشرافیہ اپنے مفادات کے مطابق چلارہی ہے۔

یکم جنوری بارے ہم لاکھ برات کا اعلان کریں جب تک ہماری ریاست فرنگی کیلینڈر کے بجائے ہجری کیلینڈر اختیار نہیں کرتی ہم اس کے پابند ہیں۔ اس کے مطابق سرکاری اور نجی ادارے چلیں گے۔ اس کے مطابق کاروبار زندگی چل رہا ہے۔ اس کے مطابق ریاست میں کاروبار اور اسی کے مطابق چھٹی ہوتی ہے۔ صرف حج، رمضان اور عیدیں ہجری کیلینڈر کے مطابق انجام پاتے ہیں۔ یہ دوغلا پن ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ ہم پیدائش پر ختنہ، عقیقہ، نکاح وطلاق اور نماز جنازہ اسلامی تعلیمات کے مطابق انجام دیتے ہیں اور باقی ساری زندگی خاندانی روایات، من پسند رسومات اور مقامی و بین الاقوامی رجحات کے مطابق گزارتے ہیں۔ مسجد میں مسلمان اور کاروبار میں ساہوکار ہوتے ہیں۔ قبرستان میں مومن اور بازار میں سیکولر کہلاتے ہیں۔ جب تک ہماری یہ روش جاری ہے ہم نہ حقیقی مسلمان بن سکتے ہیں اور نہ خودپرست سیکولر قرار پاسکتے ہیں۔

ہمیں اپنے طرز عمل کا ازسرنو جائزہ لے کر اپنی منزل اور مقصد زندگی کا تعین کرنا ہوگا۔ اپنے ذاتی اور قومی معاملات خدافراموش اشرافیہ کے سپرد کرنے کے بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق استوار کرنے ہوں گے۔ یہ منزل تو قیام پاکستان کے وقت طے کردی گئی تھی لیکن قائد اعظم رحہ کی رحلت کے بعد ہم ان کی تعلیمات کو بھولا کر جہالت کے اندھیروں کی طرف واپس لوٹ گئے۔ آج سوشل میڈیا کی بدولت اشرافیہ کا شکنجہ ڈھیلا پڑرہا ہے اور نوجوان نسل اس دورنگی کومحسوس کرنے لگی ہے۔ ماضی میں کنٹرول میڈیا ہمیں وہی کچھ بتاتا تھا جو لاٹ صاحب کی خواہشات کے مطابق ہوتا تھا۔ آج آزاد ذرائع ابلاغ نے اشرافیہ کی گرفت کمزور کردی ہے۔ جس نے ان استعماری ہتھکنڈوں کو بے نقاب کردیا ہے، جن کے ذریعہ اشرافیہ قومی امنگوں اور مفادات کو اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھاتی تھی۔ جب ملاں اور گدی نشین سارے اشرافیہ کی بولی بولتے تھے۔ آج کا نوجوان سوال اٹھاتا ہے، مکالمہ کرتا ہے اور ہر معاملے پر کیا اور کیوں جیسے سوالیہ نشان لگاتا ہے۔

یہ نئے دور کی وہ نعمت ہے جس کے ذریعے ہم اشرافیہ کے مفادات سے بلند ہوکر سوچ سکتے ہیں اور اپنی تہذیبی اقدار کو پہچان کر ان کے مطابق کاروبار زندگی کو واپس لانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔جب تک ہم ان بنیادی سوالات کوحل نہیں کرلیتے مغربی اقدار کی مشابہت ہی نہیں اطاعت کرنے پرمجبور رہیں گے اور مغربی کیلینڈر ہماری مجبوری بنا رہے گا۔