ماں اور مامتا

In افسانے
January 02, 2021

ماں اور مامتا! بھوک سے نڈھال بچے ماں کے پہلو میں بیٹھے کبھی ٹھنڈے چولھے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کبھی ماں کو۔ ماں بےبسی سے بچوں کو کبھی سینے سے لگاتی کبھی آیسے ظاہر کرتی کہ کھانا بس بننے والا ہی ہے۔ پاس رکھے ٹھنڈے چولھے اور ٹھنڈے برتن میں کچھ نہ تھا۔ ماں ایسے ظاہر کرتی کہ کھانا تیار ہو رہا ہے۔بیٹی اتنی بیمار تھی کہ دوا تک کہ پیسے نہ تھے ۔ نہ ہی کھیلانے کو کھانا۔

بیمار بچی بھوک سے مر گئی ۔ تین دن تک رشتے دار اور ہمسایوں کے گھر سے کھانا آنے لگا ۔ ماں سمیت بچے کھانا کھانے لگے ۔ اور کچھ دن گزر گئے ۔ پھر سے وہی فاقے ہونے لگے دوسرا بچہ بیمار ہو گیا۔ ماں دل سے دعا کر رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ کسی فرشتے کو کھانا دے کہ بیجھ دے بچے کئی روز سے بھوکے ہیں۔ وقت گزرتا گیا ۔ دن کا اْجالا ختم ہو گیا۔ بچے ماں سے کھانے کی فرمائش کرنے لگے ۔ ماں نے مٹکے سے پانی ڈالا اور بچوں کو پلانے لگی ۔بچہ بولا ماں بھائی کب مرے گا ۔ یہ بات سن کہ ماں کا دل رونے لگا ۔ بچہ بولا جب بہن بیمار ہوئی تو مر گئی تب سے روز ہمارے گھر کھانا بننے لگا تھا ۔ ہم بھوکھے نہیں سوتے تھے۔ اب بھائی بیمار ہے ۔ اسے کہو یہ مر جائے پھر ہمیں کھانا کھانے کو ملے گا۔ ماں یہ سن کر رونے لگی ۔ بچوں کو سینے سے لگایا ۔ اپنے آنچل سے آنسو صاف کرنے لگی ۔پانی ابھی بچے پی ہی رہے تھے کہ اچانک دروازہ بجھنے لگا۔#ماں نے اْٹھ کہ دروازہ کھولا دروازے پہ اللہ کا بندہ کھانا لے کر کھڑا تھا ۔ کہنے لگا ہم نے اپنے گھر میلاد رکھا تھا ۔ یہ آ پ کے لیے قبول کریں ۔

ماں نے بچوں کو کھانا دیا ۔ کھانا کھا کہ بچوں اور ماں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ مایوسی گناہ ہے۔ اللہ کی زات پہ بھروسہ رکھو۔ اللہ غیب سے مدد کرنے والا ہے ۔ انسان کو اندازہ بھی نہیں ہوتا اللہ کیسے راستے روشن کرتا ہے ۔۔ ہم رات کو کھانا کھا کہ سوتے ہیں ۔ اللہ کی ہر نعمت ہمارے پاس ہے ۔ اسی لیے ہمیں اپنے اردگرد موجود لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اور غریبوں کی مدد کرنی چاہیے ۔ آگر کوئی بھوکھا یا سوالی آپ کے در پر دستک دے اسے خالی نہیں جانے دو جتنی بھی استعداد ہو مدد ضرور کروں۔

تحریر۔ غلام علی

/ Published posts: 4

میرا نام غلام علی ہے میں نے علم سیاسیات میں ایم اے کیا ہوا ہے میں لاہور پاکستان سے ہوں