211 views 0 secs 0 comments

ہمارا اخلاقی زوال

In ادب
January 03, 2021

معاشرہ کی تہذیب و تمدّن کا معیار اس کی اخلاقیات پر منحصر ہوتا ہے۔ جس قدر کسی معاشرے کی اخلاقیات بہتر ہوں گی اتنی ہی اس معاشرے کی تہذیب اعلی و ارفع ہوگی۔ جس معاشرہ کی اخلاقیات پستی کا شکار ہوں گی اس معاشرے کی تہذیب کا نام تک زندہ نہیں رہتا۔ اخلاقیات سے عاری معاشرہ اپاہج اور محکوم نظر آتا ہے، ایسے معاشرہ پر ہمیشہ دوسری اقوام کا تسلّط قائم رہتا ہے۔

مشہور فلاسفر ارسطو کاماننا ہے کہ ” فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ بنتا ہے”۔یعنی کہ معاشرہ کی بنیادی اکائی فرد ہے۔ کسی بھی معاشرے کی اخلاقیات کو بہترین بنانے اور اس کی تہذیب کو بے مِثل بنانے کے لیئے سازگار ماحول پیدا کرنا ہر فرد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔جب انفرادی زندگی کا مقصد ذاتی مفادات کی بجائے معاشرتی زندگی کو پروان چڑھانا ہو تو ایک صحت مند اور تہذیب یافتہ معاشرہ جنم لیتا ہے۔پھر ایسے معاشرے میں عدل و انصاف کا بول بالا ہوتا ہے اور لوگوں میں اخوّت، محبت، ایثار اور بھائی چارے جیسے جذبات پائے جاتے ہیں۔اور جس معاشرے میں انصاف قائم ہو جائے وہاں گداگروں،جیب کتروں، ڈاکوؤں اور راہزنوں کا راج نہیں ہوتا‫

دنیا میں موجود تمام مذاہب میں سب سے سچا اور کامل مذہب اسلام اپنے ماننے والوں کو انفرادی و اجتماعی طور پر ایسا ہی اخلاقی کردار اپنانے کی تلقین کرتا ہے ،جس سے اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہوسکے اور معاشرتی برائیوں کا ناسور ختم ہوسکے۔پیارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ لوگوں کو ہمیشہ اچھے اخلاق کے تلقین کیا کرتے تھے، آپﷺ کے اسی اندازِ تربیت کے بارے میں حضرت انسؓ کہتے ہیں۔ آپ ﷺ عمدہ اخلاق کی لوگوں کو تعلیم دیتے تھے۔عمدہ اخلاق سے مراد یہ ہے کہ انسان نرم مزاج، رحمدل اور خوش طبع ہو، بے گانگی اور دوری نہ رکھتا ہو، نیز یہ کہ شائستہ گفتگو کرنے والا ہو۔اس کا مطلب ہے اسلامی تعلیمات بھی ہر فرد کو اچھے اخلاق اپنانے کی تلقین کرتی ہیں۔مگر افسوس اس بات پر ہے کہ آج مسلمان اپنے سچے مذہب کی تعلیمات سے روگردانی کی وجہ سے اپنی اعلیٰ اور لازوال تہذیب سے کنارہ کش نظر آتے ہیں
۔
مسلم معاشرہ آج اخلاقی زوال کا شکار ہے کیونکہ اسلام کے نام لیوا افراد نے قرآن و سنت کی تعلیمات سے منہ پھر لیا ہے۔ یہ معاشرہ اس قدر بے رہروی کا شکار ہے کہ ہر طرح کی اخلاقی برائی اس معاشرے میں سرائیت کر چکی ہے۔ ذرا نظر دوڑائیں آخر کونسی ایسی اخلاقی برائی باقی ہے جو اس معاشرے کا حصہ نہیں ہے۔جھوٹ،غیبت،بہتان،ظلم،ناانصافی،ناپ تول میں کمی، بددیانتی، رشوت،سود،سٹہ بازی،فحاشی و بے حیائی حتیٰ کہ ہمیں ہر طرح کی ذِلّت کا سامنا ہے جو ہماری رسوائی کا سبب ہے۔ان ساری معاشرتی بیماریوں اور ناسور کا ذمہ دار معاشرے میں موجود ہر فرد ہے۔ کیونکہ ہر فرد معاشرے کو توبہتر دیکھنے کا خواہش مند ہے لیکن خود کو بدلنا غیر ضروری سمجھتا ہے۔ ہم اپنے معاشرے کو برائی اور زوال سے نکالنے کے لیے زبانی کلامی گفتگو تو کرتے ہیں مگر عمل میں ہم صفر ہیں، عملاً ہم کچھ نہیں کرتے۔

ان میں سے بعض برائیوں کو ہم نے بطورِ فیشن اپنا رکھا ہے،جن میں فحاشی و عریانی اور بے حیائی سرِ فہرست ہے۔ ہم برائی کو برائی سمجھنے اور کہنے کی بجائے اسے عادت یا فیشن کا نام دے دیتے ہیں۔ ہم اپنے ہر بُرے عمل کا جواز گڑھ لیتے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ علم کی کمی اورجہالت کی زیادتی ہے، کیونکہ ہمارا علم حاصل کرنے کا مقصد شعوریا آگہی نہیں بلکہ محظ نوکری کا حصول ہے۔ پھر نوکری کے حصول کے لیے جعلی دستاویزات بنانا اور رشوت دینا ہم اپنا حق سمجھتے ہیں کیونکہ ہم نے ڈگری لے رکھی ہوتی ہے اور ڈگری بھی علم و شعور کے بغیر۔۔۔۔۔پرودِگارِ عالم سے دعا ہے کہ ہماری رہنمائی فرمائے اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر معاشرتی و اخلاقی برائیوں سے نجات حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے۔

/ Published posts: 6

2018 میں کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد سے کمپیوٹر سائنسز میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی‫، پیشے کے لحاظ سے میں معلم ہوں- اب تک بیشتر کالم مختلف اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں-

Facebook