شوق

In ادب
January 04, 2021

جس چیز کا انسان کو شوق ہوتا ہے اس کی طرف انسان لپکتا ہے۔ جہاں اس چیز یا کام کا کوئی موقع مل گیا، جس کا انسان کو شوق ہوتا ہے تو وہ آگے بڑھ کر بڑی خوشی کے ساتھ، اور بڑے اہتمام کے ساتھ، بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ اس کی طرف بڑھتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ شوق ہو، جیسا کہ بچپن میں ہمیں کھیل کا شوق ہوتا تھا۔ کھیلنے میں بڑا مزا آتا تھا، جہاں کھیلنے کا کوئی موقع ملتا تھا کھیلنے میں لگ جاتے تھے۔ لہذا جس چیز کا شوق اور ذوق انسان کے اندر پیدا ہوجائے تو اس چیز کی طرف انسان فورا متوجہ ہوتا ہے اور اس کی طرف آگے بڑھتا ہے۔اصل میں انسان کو جس چیز کا شوق ہوتا ہے اس کے ذہن و دل پر وہی چیز گردش کر رہی ہوتی ہے۔
ایک تو ہوتی ہے ذمہ داری، وہ تو بس نبھانی ہوتی ہے۔ لیکن شوق میں اللہ نے وہ لذت رکھی ہے کہ جس کی بنا پر پر انسان اس کام کے لیے اپنے ذہن میں ایک تصور بناتا ہے اس کا خاکہ بناتا ہے کہ کب یہ شروع ہوگا تو میں یہ کام اس طرح کروں گا اور مجھے اس کام میں لطف آئے گا۔یہ انسانی مزاج میں شوق کے حوالے سے ایک فطری بات ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ سکھایا ہے ہے کہ تم دعا کا شوق پیدا کرو۔ اللہ سے مانگنے کا ذوق پیدا کرو، اللہ کے آگے منگتے بن جاؤ، ہر وقت تمہارا دل کچھ نہ کچھ مانگ رہا ہو۔
یہ دعا کا ذوق جب پیدا ہو جاتا ہے پھر جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں تو بند کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ مگر یہ اسی وقت ہوتا ہے جب ہمارے اندر دعا کا شوق ہو۔
جتنی بھی مسنون دعائیں ہیں کہ بیت الخلاء میں داخل ہونا ہے تو یہ دعا پڑھنی ہے، کھانا کھانے بیٹھنا ہے تو یہ دعا پڑھنی ہے، بازار میں چلنا ہے تو یہ دعا پڑھنی ہے، گھر سے باہر نکلنا ہے تو یہ دعا پڑھنی ہے۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ ہمارے اندر دعا کا، اللہ سے مانگنے کا شوق پیدا ہو جائے جب ان مسنون دعاؤں کی برکت سے یہ شوق پیدا ہو جاتا ہے تو دل ہر وقت اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے اور کچھ نہ کچھ مانگتا رہتا ہے۔
دعا کا شوق ہی اللہ رب العزت تک پہنچنے کا آسان ترین، بہترین اور مختصر ترین راستہ ہے۔