تنقید برائے اصلاح اور تنقید برائے تنقید میں فرق؟

In ادب
January 05, 2021

السلام علیکم محترم قارئین آج میں آپ کوتنقید کے بارے میں بتانے جا رہا ہوں۔ تنقید دو طرح کی ہوتی ہے۔

نمبر1۔تنقید برائے اصلاح
نمبر2۔ تنقید برائے تنقید

اگر ہم کوئی کام کر رہے ہوں اور ہم سے کوئی دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کوئی غلطی ہواور ہمارے چاہنے والے اس غلطی کو دیکھ کر ہمیں ٹوک دیتے ہیں۔ یہ تنقید کی پہلی قسم ہے اس میں ہم اپنی اصلاح کر کے خود کو پہلے سے بہتر بنا سکتے ہیں۔ ایسی تنقید بہت اچھی ہوتی ہے اس سے جتنا ہوسکے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اگر ہم اس کو سنجیدہ نہیں لیتے تو ہم اپنی اصلاح کے تقریباََ سو میں سے ننانوے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ اس تنقید کو ہمیشہ مثبت ہی لینا چاہیئے۔اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی اصلاح کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیئے۔

اب آتے ہیں دوسری قسم کی طرف جب کوئی شخص کسی کا اوصاف کے لحاظ سے مقابلہ نہ کرسکے تو وہ بےجا تنقید کرنا شروع کردیتا ہے اپنے سامنے والے کو نیچا دیکھانا شروع کردیتا ہے۔اس قسم میں یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی کسی مقام یا مرتبے کے لائق نہ ہو اور اسکا پسندیدہ مقام ومرتبہ کسی اور کو مل جائے تو وہ اس سے بےجا نفرت کرنا شروع کردیتا ہے۔ اسی نفرت کی وجہ سے وہ اپنے سامنے والے پر ایسی تنقید کرتا ہے جو بےتکی اور بالکل بےبنیاد ہوتی ہے۔ اس تنقید کو تنقید برائے تنقید کہا جاتا ہے۔ اگثر لوگ تنقید برائے تنقید پر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں۔ ہرکوئی یہ سوچتا ہے کہ یہ خامی یاعیب مجھ میں تو نہیں ہے پھر یہ کیوں مجھ پہ تنقید کررہا ہے ۔ اسی وجہ سے وہ غصہ میں آکر ایک دوسرے سے لڑپڑتےہیں اور ہمارے درمیاں حالات ناخوشگوار حد تک چلے جاتے ہیں۔بعض اوقات تو لوگ تمام عمر ایک دوسرے کو دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے۔

حل:تنقید برائے تنقید کا ایک ہی حل ہے کہ ہم اپنی سوچ کو مثبت کرلیں تو اس سے باآسانی بچاجاسکتا ہے۔ اکثر منفی سوچ کی وجہ سے ہی ہم تنقید برائے تنقید پر پریشان ہوتے ہیں۔ اور حالات اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ ہم ذہنی دبائو کا شکار ہوجاتےہیں۔ ہمیں پریشان ہونے کی بجائے کچھ دیر کیلئے اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیئے کہ کیاجو تنقید مجھ پر کی جارہی وہ حق بجانب ہے؟ اگر ہے تو یہ تنقید ہماری اصلاح کا سبب ہے اس پر ہمیں اس بندے کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے کہ اس نےہمیں ہماری اصلاح کا موقع دیا۔ اور اگر اس سوال کا جواب نہیں ہے تو پھر آگ بگولہ ہونے کی بجائے یہ سوچنا چاہیئے کہ وہ خود ہم سے اپنی ہار تسلیم کر چکا ہے جس کی وجہ سے وہ ہم پر اپنی ہار کو کچھ اس طرح ظاہر کر رہا ہے کہ جو چیز ہم میں نہیں وہ ہمیں اس سے بےجا منسوب کر رہا ہے۔

اس کو ایک مثال سے آپ کو سمجھاتا ہوں کہ اگر آپ لمبی قدو قامت کے مالک ہیں اور کوئی آکر آپکو ٹڈو یا کچھ اس طرح کے نام سے منسوب کرے تو آپ کو ہنسی آجائے گی کہ یہ کیا بات کررہا ہے ۔ اسی طرح آپ خود کسی گورے کو کالا کہہ کر دیکھ لیں تو اس کا تعاثر کیا ہوگا؟ یقیناََ وہ آپ پر ہنسنا شروع کردے گا۔ تو جب ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ تنقید برائے تنقید میں سامنے والا جو کچھ کہہ رہا ہے وہ ہم میں نہیں تو آگ بگولہ ہونا بنتا ہی نہیں ۔ مگر ہماری منفی سوچ ہی ہوتی ہے جو ہمیں غصہ دلاتی ہے۔ امید ہے کہ آج کی یہ تحریر آپکو پسند آئی ہوگی ۔ شکریہ!

/ Published posts: 16

میرا نام احمد حسن ہے اور میرا تعلق مظفرگڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کے ایک چھوٹے شہر دائرہ دین پناہ سے ہے۔ مجھے نئی چیزین سیکھنے اور سکھانے کا بہت شوق ہے۔

Facebook