دانی

In افسانے
January 05, 2021

شکور تیلی کا بیٹا دانی یوں تو کلاس کے ہونہار سٹوڈنٹس میں شمار ہوتا تھا مگر پچھلے تین دنوں سے تختی نہ ہونے کی بنا پر وہ استاد سے سزا پا رہا تھا-
روتا ہوا گھر لوٹتا اور ابّا پر اپنا غصہ نکالتا کہ پڑھانے کا شوق ہے مگر تختی نہیں لے کر دے سکتا
ابّا… میں نے کہہ دیا بس، آج تختی لے کر دے گا تو ہی کل سکول جاؤں گا. ورنہ ساری کتابیں بشیرے ردّی والے کو بیچ آؤنگاـ
دانی کا جلال دیکھ کر شکور تیلی نے دانی کا ہاتھ پکڑا اور بازار کی راہ لی ـ
ایک دوکان پر پہنچ کر تختی لی اور دکاندار کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے سہمے سہمے لہجے میں گویا ہوا ـ ـ ـ
ملک صاب : پیسے کچھ دن بعد دے جاؤں گا
اتنا سننا تھا کہ دکاندار نے شکور تیلی کی چپل اتروا لی اور بولا ـ ـ ـ
شکورے ـ ـ ـ جس دن پیسے دے گا چپل اُسی دن لے جانا ـ ـ ـ
شکورے کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے
اِس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا
اچانک دانی آگے بڑھا اور دکاندار کے ہاتھ سے چپل لے کر باپ کا ہاتھ پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے واپس ہو لیا ـ ـ ـ
دانی تیری تختی ـ ـ ـ شکورے نے کچھ کہنا چاہا مگر دانی بات کاٹ کر بولا کہ کوئی بات نہیں ابّا، میں استاد سے مار کھا لوں گا ـ ـ ـ
باپ بیٹا گُم صُم گھر کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں اُنکا ایک پڑوسی مل گیاـ
باپ ، بیٹے کے چہروں پر اداسی دیکھ کر پڑوسی نے وجہ پوچھی تو شکورے نے سب بتا دیاـ
شکورے کا پڑوسی سلیمان نے شکورے کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
یار پریشان نہ ہو
میرا بیٹا پڑھائی سے بھاگ گیا ہے
اُس کی تختی رکھی ہوئی ہے وہ دانی لے جایا کرے گاـ دانی جو سوچوں میں گُم استاد سے مار کھانے کے لیے خود کو تیار کر رہا تھا
پڑوسی کی بات سُن کر خوش ہو گیا
پروفیسر ملک نے یہ کہانی سنانے کے بعد لمبا سانس کھینچا اور دیگر پروفیسرز کی طرف دیکھا جو بغور انکی باتیں سُن رہے تھےـ
پروفیسر ملک پھر مخاطب ہوئےـ ـ ـ
آپ لوگوں کو یاد ہو گا چند دن پہلے میلے سے دھوتی کُرتے میں ملبوس ایک دیہاتی مجھ سے ملنے آیا تھا جس کو گلے لگانے اور اُس کے ہاتھوں کو بوسہ دینے پر آپ سب نے میرا مذاق بنایا تھاـ وہ کوئی اور نہیں
شکورے تیلی کا پڑوسی سلیمان تھاـ ـ ـ چاچا سلیمان
پروفیسر ملک نے اپنی آنکھوں میں آنے والے آنسو اپنی پوروں سے صاف کیئے اور بولے ـ ـ ـ
دوستو ـ ـ ـ! چاچا سلیمان کی دی ہوئی تختی کی بدولت شکورے تیلی کا بیٹا دانی، پروفیسر دانیال ملک بن کر آپ کے سامنے موجود ہے
پروفیسر ملک کے آخری جملے نے سٹاف روم میں بیٹھے ہر شخص کو حیرت میں ڈال دیا
سب ملک صاحب کو رشک بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے.

تحریر: عارش خان

/ Published posts: 4

My name is Muhammad Arish Khan. I belong to the city of Khanewal. I am a lecturer of Urdu in Punjab Group of Colleges

Facebook