محبت تھی یا رسوائی

In افسانے
June 08, 2021
محبت تھی یا رسوائی

محبت تھی یارسوائی

آج وہ اسےپورے پانچ سال بعددیکھ رہی تھی وہ بدل سا گیا تھا بھری ھوا جسم بڑی آنکھیں اسے آج بھی اپنے سحر میں مبتلا کر رھی تھی شادی کا پورا ھال بھرا ھوا تھالیکن اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھاابی وہ اسی کیفیت میں تھی کہ اچانک ساحل بولاتے ہو سے  اسےایک لڑکی گزری جو اس لڑکے کی بیوی تھی جیسے دیکھ کے آج بھی مومل خود کے دل پے اختیار کھوں دیتی تھی

زہر لگ رہی ہو مجھے تم ایسی زندگی سےتم مر نہیں جاتی مومل کی بہن نےاسے غصہ سے دیکھ کے کہاچلو گھر امی بلا رہی ہےکومل نے اس ہاتھ پکڑا یسے اپنے ساتھ لے گئی-  تمھیں آج  بھی اسے مھبت کیسے ہو سکتی ہے کومل نے اسے کھا جانے والی -نظروں سےدیکھاچلو گھر اب گاڑی میں بیٹھتے ہوئےکھا مومج چپ چاپ بیٹھ گئی گھر آکے سب تھوڑی دیر میں سو گئے لیکن نیند اس کی نظروں سے کوسوں دور تھی وہ ماضی میں کھو سی گئی

ساحل ہم ٹھیک تو کر رہے ہے نا؟مومل نے ساحل کی آنکھوںمیں دیکھاتم  جانی ہو ہمارے پاس کے سوا کوئی راستہ نہیں ھےاب بیٹھوں گاڑی میں ہمارے نکاح کے بعدہمارے گھر والوں کو ہمیں قبول کرنا ہی پڑے گااس کے بعد وہ دونوں رات کے اندھیرے میں مومل کے گھر سے نکل گئے ھم کھا جارہے ہیں مومل نے سوال کیاھمارے گھر نکاح سے پہلے نکاح صبح ہوگارات گھر کے پیچے حصے میں رہے گے ویسے ھی گھر کوئی نہیں ھے شام ہی سب گائوں کے لئے نکل گئ ماموں کی طبیعت خراب ہے اترواب گھر آگیامومل اندرچلی گئی ویسے بھی یہ اس کے مامو کا گھر تھا جہاں وہ اکثر آتی تھی پر آج اسے ڈر لگ رہا تھا

تم مجھے چھوڑں تو نہیں دوگے نہ تمجانتے ھو مجھے تم سے بے پناھ محبت ہے میں مر جائوں گی تمھارے بغیر مومل نے ساحل کے دونوں ہاتھ اپنے ھاتھوں میں لے کے کہاتمیں لگتا ھے میں گے سکتا ھو تمھارے بغیرساحل کی آنکھوں نے اس کی محبت کی گواہی  دی ابھی یہ دونوں بات کے ھی رھے تھے تواچانت گیٹ کا دروازا کھولا سامنے ساحل کی ماں کھڑی تھی امی اپ یہاں ؟ساحل نے بوکھلاں کے سوال کیا؟ہاں میں یہاں تمھارے ماموں کوکراچی لا رے تھے تو ھم واپس آگئے اس کے ساتھ ہی اسکی امی نے زور دار تھپڑ ساحل کے منہ پر مارارب نے عزت بچانی تھی تو تبھی آگئےاور تم مومل کے بالوں سے پکڑ کے گھر سے باھر نکالا تمہیں لگتا ہے تمہارے گھرکی بہوبنوں گی تمہارے ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی ساحل کی امی نے اسے بالوں  سے پکڑ کے گھر سے باہر نکالاساحل تم سمجھائوں نا مامی جان کو ھم محبت کرتے ھے ایک دوسرے سے ۔نہیں امی یہ خود آئی ھے مجھےتو پتا بھی نھیں تھامیں تو بس اسے اچھا دوست سمجھتاتھا مجھے نھیں پتا تھا یہ کیا سمجھتی ھے ابھی آپ کے  انے سے پہلے آئی ھے میں آپ کو کال کرنےوالاتھا کے آپ آگئی اس کے بعد مومل کو کچھ سنائی نہیں دیامامی نے اسے گاڑی میں اپنے گھر بھج دیا گھر جیسے ھی داخل ھوئی  اس کے باپ نے اسے بہت ماراپر نہ اسے کچھ سنائی دےرھا تھا نہ ھی اسے جسم پے لگنے والی چوٹ محسوس ھو رھی تھی

صبح تک پوری بات پورے خاندان پھیل گئی اسے ھر طرح کے لفظوں سے نوازا گیابدکردارسے لے کےآواراں تک وہ اندر تک مر گئی کچھ دنوں بعد ساحل کی بڑے دھوم دھام سےشادیکر دی گئی وہ آج بھی خاندان میں میں عزے دارلوگوں میں شمار ھوتا ھے اورمومل آج بھی بدکردار مانی جاتی ھے ساحل تواسےکسی کہانی کی طرح بھول گیالیکن لوگون نے یسے اپنا ماضی آج تک بھولنے نہ دیا

آپی فجر کاٹائم ھوگیا ھے نماز پڑھ لے کومل نے اسے آواز دی مومل نے آنسوں صاف کئے اور  نماز پڑھنے چلی گئی کیوں کے ایک خدا ہی تھا جو اس کا سچ جانتاتھا مومل نے اپنافیصلہ حا لات پر چھوڑ دیا