تذکرہ وفاؤں کا (دوسراحصہ)

In عوام کی آواز
January 31, 2023
تذکرہ وفاؤں کا (دوسراحصہ)

*تذکرہ وفاؤں کا*
(دوسراحصہ)

*تحریر: مسز علی گوجرانوالہ*

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺپر سب سے پہلے ایمان لائے ۔عورتوں میں سب سے پہلے، حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ عنہا بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہ غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ اور مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ،،محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے ، لیکن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے قبول اسلام کی خبر مکہ میں ہیڈ لائن بن گئی۔

حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنها آ پ کی بیوی ہیں، بیوی شوہر کی بات مانے تو ہیڈ لائن نہیں بنتی، حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ گھر کے بچے ہیں، بچے بڑوں کی بات مانیں تو ہیڈ لائن نہیں بنتی، حضرت زید بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ گھر کے ملازم ہیں، ملازم ، مالک کی بات مانے تو ہیڈ لائن نہیں بنتی۔ لیکن سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ بنو تیم کا سردار ہے، مکہ کا جسٹس اور قاضی ہے، ریشم کی چھ مارکیٹوں کا مالک ہے، خون بہا کی رقم جس کے پاس امانتاً رکھی جاتی ہے۔ اثر و رسوخ والا آدمی ہے، نسب دانی کے معاملے میں جس کے در پر حاضری دی جاتی ہے، پڑھا لکھا با شعور آدمی ہے قبیلہ بنو ہاشم کا فرد نہیں ہے۔ جب وہ ایمان لاتا ہے تو مکہ میں ہیڈ لائن بنتی ہے۔ جو کفارِ مکہ کے لیے چیلنجنگ ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کا قبول اسلام کفارِ مکہ کے لیے الارمنگ سائن تھا کہ اتنا اہم آدمی اسلام لے آئے۔ لیکن یہ تو ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ ہے نا پہلوں میں پہل کرنے والا۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے جب کلمہ پڑھا تو اپنی محنت کا خلاصه بیان کر دیا کہ عشرہ مبشرہ میں سے چھ افراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی دعوت پر مسلمان ہوتے ہیں۔کلمہ پڑھ کر اس دھرتی پر جو سب سے پہلے مسلمان کہلائے، وہ ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ ہی تھے۔

جب معراج کا واقعہ ہوا تو یہ بہت ہی عجیب و غریب واقعہ تھا۔ آقا کریم ﷺنے جب اعلان کیا کہ اللہ تعالی نے یوں مجھے سات آسمانوں کی سیر کرائی، پچاس نمازوں کا تحفہ دیا جو کم کروا کر پانچ فرض نمازوں تک معاملہ طے کروایا اور باقی سفر معراج کی تفصیل بتائی ۔کفارِ مکہ نے سوچا کہ اس سے بڑھ کر اور کیا موقع ہو گا پروپیگنڈا کرنے کا۔ انہوں نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ سے کہا اے ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ رات کے مختصر وقت میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ پہنچے، سا ت آسمانوں کی سیر کرے اور پھر واپس آ جائے تو بات ما ننے میں آتی ہے۔ کہا، بالکل نہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ تیرا یار ہی تو کہتا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق نے کہا

لئن قاله فصدق صدقته

اگر انہوں نے کہا ہے تو سچ کہا ہے میں تصدیق کرتا ہوں۔ کوئی اور کہے تو اب بھی نہ مانوں۔ یوں ابو بکر نے واقعہ معراج کی تصدیق کی اور صدیق کہلائے۔

انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔صحابہ کرام سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جوان کی افضلیت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کاحصہ ہے ۔بصورت دیگرایما ن ناقص ہے ۔جماعت ِ صحابہ میں سے بابرکت شخصیات میں سے خلیفۂ اول سیدنا ابو بکر صدیق سب سے اعلیٰ مرتبے اور بلند منصب پر فائز تھے اور ایثار قربانی اور صبر واستقامت کا مثالی نمونہ تھے ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ قبیلہ قریش کی ایک مشہور شاخ تیم بن مرہ بن کعب کے فرد تھے۔ساتویں پشت میں مرہ پر ان کا نسب رسول اللہﷺ سے مل جاتا ہے ہے ۔ایک سچے مسلمان کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ انبیاء ورسل کے بعد اس کائنات میں سب سے اعلیٰ اور ارفع شخصیت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ ہیں ۔

،،افضل البشر بعد از انبیاء،،

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ ہی وہ خو ش نصیب ہیں جو رسول اللہﷺ کےبچپن کے دوست اور ساتھی تھے ۔ رسول اللہ سے عقیدت ومحبت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت کے لیے تن من دھن سب کچھ پیش کر دیا ۔نبی کریم ﷺ بھی ان سے بے حد محبت فرماتے تھے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے مروی ہے،حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ کی نیکیوں سے خوش ہو کر حضرت محمد نے اللہ کے حکم سے فرمایا

انت عتیق اللّٰہ من النار

اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے جہنم سے آزاد کرنے کا سرٹیفکیٹ جس کو دیا ہے وہ ابو بکر ہے۔اور یہی صدیق عتیق لقب والا کہا کرتا تھا کہ,, اگر میرا ایک پاؤں جنت میں ہو اور دوسرا باہر ہو تو بھی میں خود کو اللہ کے غضب سے محفوظ تصور نہ کروں گا،،

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ غار ثور کیلئے روانہ ہوئے تو راستے میں وہ کبھی حضور ﷺ کے آگے چلتے، کبھی پیچھے،کبھی دائیں اور کبھی بائیں۔رسول اللہ ﷺ نے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں کوئی گھات میں نہ بیٹھا ہو تو آپ ﷺ کے آگے چلنے لگتا ہوں پھر اندیشہ ہوتا ہے کہ پیچھے سے کوئی وار نہ کر دے تو پیچھے ہو جاتا ہوں اسی طرح دائیں اور بائیں ہو جاتا ہوں۔ یہ فیصلہ تو آسمان سے جبرائیل علیہ السلام لیکر آئے تھے کہ اکیلا ابو بکر پیغمبر ﷺ کی حفاظت کے لیے کافی ہے۔مجتبٰی ﷺکا ہمسفر ابو بکر ہے۔

وفاؤں کو جس پر فخر ہے
اس وفادار کا نام ابو بکر ہے

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ اس رات نبی اکرم ﷺپاؤں کی انگلیوں کے بل چل رہے تھے تاکہ قدموں کے نشانات سے دشمن ان کے ٹھکا نے سے آگاہ نہ ہو جائیں یہاں تک کہ آپ ﷺکے پاؤں مبارک میں آبلے پڑ گئے جب صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ نے نے یہ کیفیت دیکھی تو نبی اکرم ﷺکو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور چلنا شروع کر دیا حتٰی کہ غار تک پہنچ گئے۔ کیا حسین سعادت اس وفادار کے حصے میں آئی کہ نبی کریم ﷺکے کندھوں پر مہر نبوت ہے اور ابو بکر صدیق کے کندھوں پر وجود نبوت ہے۔

جبل ثور ڈھلوانی نہیں بلکہ ایک سیدھا پہاڑ ہے، جس پر آج کے دور میں بھی چڑھنا آسان نہیں ہے جبکہ سڑکیں ہموار ہیں راستے بن گئے ہیں۔ ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ تنہا بغیر کسی لفٹ کے وجود نبوت اپنے کندھوں پر اٹھا کر لے گئے۔ امت میں سب سے زیادہ بہادر اور مضبوط اعصاب کے مالک ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ ہی تو تھے۔

وہ ایسا مددگار صحابی تھا کہ دنیا جہاں کی نیکیاں مل کر بھی اس ایک غار والی نیکی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ غار کے دہانے پر پہنچ کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے کہا خدا کے لیے آپ ﷺ پہلے داخل نہ ہوں،پہلے میں داخل ہو کر دیکھ لیتا ہوں کہ کوئی مضر چیز نہ ہو۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ غار کے اند ر گئے اور صاف کیا ایک جانب چند سوراخ تھے جنہیں آپ نے اپنی چادر اور کرتا پھاڑ کر بند کر دیا لیکن ایک سوراخ بعض روایات کے مطابق دو سوراخ بچ گئے تو حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ نے اپنا پاؤں رکھ کر ان کو بند کیا۔ پھر آپ ﷺسے عرض کی کہ آپ ﷺغار کے اندر تشریف لے آئیں۔

آپ ﷺغار کے اندر تشریف لے گئے اور حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ کی آغوش میں سر رکھ کے سو گئے۔ صدیق کی گود صادق و امین کا بستر بنی۔راوی بیان کرتے ہیں کہ ابو بکر تو قرآن کو پڑھ رہا تھا، آہستہ آہستہ۔و رتل القران ترتیلا۔تین دن اور تین راتیں۔ وہ واللضحی چہرے کو دیکھ رہا ہو گا کبھی واللیل زلفوں کو پڑھ رہا ہو گا کبھی مازغ الابصر آنکھوں کو، کبھی مزمل کی کملی کو،کبھی و ما رمیت از رمی والے ہاتھوں کو دیکھ رہا ہو گا۔

اس سوراخ میں ایک سانپ موجود تھا جسے ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ نے اپنا پاؤں رکھ کر بند کیا تھا۔ سانپ ایک تو اپنی فطرت کی وجہ سے بھی ڈس رہا تھا دوسرا وہ بھی دیدار نبوت کا طلب گا ر تھا اس نے سارے راستے جب مسدود پائے تو ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ کی ایڑی پر ڈنگ مارنا شروع کر دیا،سانپ تو احتجاج کر رہا تھا لیکن ابو بکر نے پاؤں نہیں ہٹایا کہ نبی کریمﷺ کی نیند نہ خراب ہو۔انسان کو کوئی معمولی کیڑا یا چیونٹی کاٹ لے تو وہ کپکپا کر رہ جاتا ہے۔لیکن ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ نے تو پاؤں کو جنبش تک نہ دی۔ضبط تکلیف سے ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اور حضورِ اکرم ﷺکے مبارک چہرے پر گر گئے۔ان کی تر آنکھ سے ان کے رخسار تک جو سفر تھا معتبر ہو گیا۔ اللّٰہ کو یہ قطرے اس قدر عزیز تھے کہ ضائع نہ ہونے دیے۔ حضرت محمد ﷺ بیدار ہو گئےاور پوچھا

،،مالک یا ابو بکر ؟،،
ابو بکر کیا ہوا ؟

یہ بڑی ہنگامی صورت حال تھی کہ سانپ نے ڈسا تھا اورجلدی میں ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ کہہ سکتے تھے۔ لدغت، لدغت یعنی ڈسا گیا لیکن ابو بکر تیری قربت کے قربان، کائنات میں ایسا عاشق ہے ہی نہیں۔سانپ ڈنگ پہ ڈنگ لگا رہا ہے۔ٹانگ شل ہو گئی ہے اور زہر سرائیت کر رہا ہے اس مشکل وقت میں بھی ادب و عشق کا قرینہ نہیں چھوڑا اور کہا

،،فدا ک ابی و امی یا رسول اللہ لدغت،،

حضور ﷺمیری ماں بھی آپ کے قدموں پر نثار ،میرا باپ بھی آپ کی راہوں پر نچھاور، مجھے سانپ نے ڈس لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے

/ Published posts: 17

دستبرداری : اس کیٹیگری کی تمام پوسٹس عوام کے نظریات اور خیالات پر مبنی ہیں ،نیوزفلیکس کی ٹیم ان تمام آرٹیکلز میں پیش کردہ حالات و واقعات کی درستگی کی ذمہ دار نہیں ہے۔

1 comments on “تذکرہ وفاؤں کا (دوسراحصہ)
Leave a Reply